سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(343) سنت یہ ہے کہ گواہوں کے ساتھ رجوع کیا جائے

  • 9798
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1397

سوال

(343) سنت یہ ہے کہ گواہوں کے ساتھ رجوع کیا جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک معمولی کام کی وجہ سے اپنی بیوی سے بہت سخت غصے ہوا اور جب غصہ دور ہوا تو میری بیوی نے مجھے بتایا کہ میں نے اسے غصے کی حالت میں ایک طلاق دے دی ہے‘ میں بیٹھ کر یاد کرنا شروع کر دیا کہ کیا مں نے اسے طلاق دی ہے یا نہیں‘ لیکن اس کے بارے میں مجھے مکمل طور پر یاد نہیں اور بیوی کو طلاق دینے کی میری کوئی نیت بھی نہ تھی‘ مگر زبان لغزش کھا گئی‘ قصد و ارادہ کے بغیر غصہ غالب آ گیا اور چونکہ مجھے یہ بھی اعتماد تھا کہ میری بیوی نے جھوٹ نہیں بولا‘ لہٰذا میں نے اس وقت رجوع کر لیا‘ لیکن رجوع کیلئے کسی کو گواہ نہیں بنایا بلکہ اس سے میں نے یہ کہ دیا کہ اس سے میں نے رجوع کر لیا ہے اور پھر بعد میں حسب معمول زندگی بسر کر نا شروع کر دی اور اب جب کہ اس بات پر ایک وقت گزر چکا ہے‘ طرح طرح کے وسوے دامن گیر ہیں‘ لہٰذا امی ہے کہ آپ فتویٰ سے سرفراز فرمائیں گے کہ کیا مذکورہ حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ اور اگر طلاق واقع ہو جاتی ہے تو کیا مذکورہ طریقہ سے میرا رجوع کرنا صحیح ہے ‘ نیز اس صورت میں میرے لئے کیا لازم ہے؟ یاد رہے کہ یاک رجعی طلاق تھی اور عدت کی مدت ختم ہو چکی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مراجعت صحیح بشرطیکہ عدت کے اندر واقع ہوئی ہو اور سنت یہ تھی کہ آپ دو گواہوں کو بھی اس پر شاہد ٹھہرا لیتے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِذا بَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعر‌وفٍ أَو فارِ‌قوهُنَّ بِمَعر‌وفٍ وَأَشهِدوا ذَوَى عَدلٍ مِنكُم وَأَقيمُوا الشَّهـٰدَةَ لِلَّهِ...﴿٢﴾... سورة الطلاق

’’پھر جب وہ اپنی معیاد یعنی انقضائے عدت کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو ان کو اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو یا اچھے طریقے سے علیحدہ کر دو اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کر لو اور گواہو اللہ کے لئے درست گواہی دینا۔‘‘

اہل علم نے اس آیت کریمہ سے استد لال کیا ہے کہ طلاق و رجعت کیلئے گواہی مشروع ہے۔ لہٰذا زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ آپ اسے طلاق شمار کریں اور اس کے واقع ہونے کا اعتبار کریں‘ کیونکہ آپ نے سوال میں کہا ہے کہ آپ کی بیوی نے آپ کو یہ یاد دلایا‘ اور آپ کو اس کی بات پر اعتماد ہے اور پھر نبی اکرم ؐ نے فرمایا:

((فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه )) (صحيح البخاري)

’’جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین و عزت کو بچا لیا۔‘‘

نیز آپ کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے:

((دع ما يريبك إلى ما لا يريبك )) ( جامع الترمذي )

’’جس چیز میں شک ہوا اسے چھوڑ کر اس کو چیز اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 324

محدث فتویٰ

تبصرے