السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے چھوٹے بھائی کے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں طلاق کے ساتھ قسم کھائی‘ لیکن وہ میری اس قسم کے باوجود گھر سے نکل گیا‘ طلاق کے ساتھ قسم کھاتے وقت میرا مقصود طلاق نہ تھا بلکہ محض اسے ڈرانا تھا اور اس وقت میں بہت غصے کی حالت میں بھی تھا لیکن جب غصہ ختم ہوا تو میں نے بھائی کو معاف کر دیا‘ امید ہے کہ آپ فتویٰ عطا فرمائیں گے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو سلامت رکھے!
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اے سائل ! اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر کیا ہے کہ بھائی کے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں آپ کا مقصد طلاق کا نہ تھا بلکہ آپ اسے منع کرنا اور ڈرانا چاہتے تھے تو علما کے زیادہ صحیح قول کے مطابق آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہے‘ اس سے آپ کی بیوی کو طلاق نہیں ہوگیج‘ قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن کا آزاد کرنا ہے اور عدم استطاعت کی صورت میں تین دن کے روزے رکھنا ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَتُهُ إِطعامُ عَشَرَةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحريرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذٰلِكَ كَفّـٰرَةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايـٰتِهِ لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٨٩﴾... سورة المائدة
’’اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کریگا لیکن پختہ قسموں پر جن کیخلاف کرو گے مواخذہ کریگا تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو اور اسے توڑ دو اور تم کو چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب