سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(334) طلاق کے لفظ کے استعمال میں تساہل روا نہیں ہے

  • 9789
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1304

سوال

(334) طلاق کے لفظ کے استعمال میں تساہل روا نہیں ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو میرے گھر سے نکل کر اپنے والد کے گھر گئی اور وہاں سوئی تو مجھ پر طلاق دینا لازم ہو گا‘ یہ میں نے اس لئے کہا کہ ہمارے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا لیکن یہ کہنے کے باوجود میری بیوی اپنے والد کے گھر چلی گئی‘ لیکن پڑوسی اسے اسی دن لے کر میرے گھر آ گئے اور وہ اپنے والد کے گھر نہ سوئی ‘ بلکہ اس رات مگرے گھر میں ہی سوئی تو  سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں قیہ قسم ہو گی اور مجھے کیا کرنا چاہئے تا کہ مجھے قسم کی وجہ سے گناہ نہ ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں قارئین بلکہ تمام مسلمان بھائیوں سے یہ امید کروں گا کہ وہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کریں اور طلاق کے استعمال میں تساہل سے کام نہ لیں‘ کیونکہ اس کا معاملہ بہت عظیم ہے اور خطرناک ہے‘ لہٰذا جب وہ قسم کھانا چاہیں تو اللہ کے نام کی قسم کھائیں یا خاموش رہیں‘ طلاق کے ساتھ قسم کے حکم کے بارے میں خواہ وہ بیوی پر ہو یا کسی اور چیز پر‘ اہل علم کا اختلاف ہے‘ اکثر کے نزدیک یہ طلاق ہے اور قسم نہیں ہے‘ لہٰذا قسم ٹوٹنے کی صورت میں بیوی کو طلاق ہو جائیگی۔

کچھ دیگر اہل علم کے رائے یہ ہے کہ طلاق کے ساتھ قسم سے اگر مقصود قسم ہو تو یہ قسم ہو گی اور اگر اس سے مقصود طلاق ہو تو طلاق ہو گی کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

((إنما الاعمال بالنيات وإنما لكل امرىء ما نوى)) ( صحيح البخاري)

’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کیلئے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘

یہ سائل جس نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ اگر تو اپنے والد کے گھر جا کر سوئی تو تجھے طلاق ہے‘ اگر اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ وہ تاکید کے ساتھ اپنی بیوی کو گھر سے نکلنے سے منع کرنا چاہتا تھا تو اس سے طلاق واقع نہ ہو گی خواہ وہ گھر سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اگر وہ گھر سے نکل جائے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہو گا جو کہ دس مسکینوں کا کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن کا آزاد کرنا ہے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو پھر مسلسل تین دن کے روزے رکھنا ہے۔

اگر سائل کا مقصد ان الفاظ سے طلاق تھا تو عورت کے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں طلاق واقع ہو جائیگی اور اگر گھر سے باہر نہ نکلے تو طلاق نہیں ہو گی یا گھر سے نکلے اور پھرس واپس لوٹ آئے اور گھر میں نہ سوئے تو پھر بھی طلاق نہیں ہو گی اور اگر یہ آخری طلاق ہو تو پھر یہ اپنے شوہر کے حلال نہ ہو گی حتی کہ یہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کر لے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 319

محدث فتویٰ

 

تبصرے