السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طلاق معلق کے بارے میں اگرچہ کئی فتوے موجود ہیں لیکن افسوس پھر بھی کئی لوگ اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہو گئے ہیں‘ مثلاً ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تو میرے گھر نہ آئے یا میر پاس کھانا نہ کھائے تو میری بیوی کو طلاق‘ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی‘ اسے قسم سمجھا جائیگا‘ لہٰذا اس کا کفارہ دینا ہو گا ‘ تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ قسم ہے ؟ لیکن قسم تو غیر اللہ کی جائز نہیں ‘ بلکہ شرک ہے تو غیر اللہ کے نام کی اور گناہ میں مبتلا کر دینے والی اس قسم کا کفارہ کیسے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ شرط کے ساتھ معلق طلاق‘ جب کہ اس سے مقصود منع کرنا ‘ یا روکنا ‘ یا پابند کرنا ہو تو یہ قسم ہے‘ انہوں نے در حقیقت یہ کہا ہے کہ یہ قسم کے حکم میں ہے‘ قسم نہیں ہے اور غیر اللہ کے نام کی جس قسم سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قسم ہے جو صیغہ قسم ’وائو‘ یا ’با‘ یا ’تا‘ کے ساتھ ہو مثلاً جس طرح ’ واللہ‘ ’ بااللہ‘ اور ’تااللہ‘ کہہ کر قسم کھائی جاتی ہے‘ اس طرح غیر اللہ کے نا مکی قسم کھانا منع ہے ‘ جبکہ تحریم و تعلیق طلاق سم کے حکم میں ہے ‘ یہ اپنے صیغہ کے اعتبار سے قسم نہیں ہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبتَغى مَرضاتَ أَزوٰجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١﴾ قَد فَرَضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـٰنِكُم... ﴿٢﴾... سورة التحريم
’’اے پیغمبر جو چیز اللہ نے تمہار لئے حلال قرار دی ہے آپ اسے حرام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ کیا آق اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘ اللہ نے تم لوگوں کیلئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تحریم کا نام قسم رکھا ہے‘ لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ اس طرح کی طلاق قسم ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ قسم کے حکم میں ہے‘ اس سے مراد وہ قسم نہیں ہے جب کے بارے میں منع کر دیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی نہ کھائی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب