السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک شادی شدہ نوجوان ہوں‘ میری والدہ اور بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ‘ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ اسے چھوڑ دو‘ اللہ کی قسم! یہ اب میرے لئے حلال نہیں ہے‘ میں نے یہ الفاظ طلاق کے ارادہ سے کہے تھے اور جب میں نے اس بارے میں ایک عالم سے فتویٰ لیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ قسم ظہارے کے قائم مقام ہے‘ لہٰذا آٰپ پر دو ماہ کے روزے واجب ہیں اور اگر روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ میری بیوی میرے ساتھ گھر میں ہی رہتی ہے‘ میں دو ماہ تک صبر نہیں کر سکوں گا‘ میں نے ایک رات ایک نابنائی سے ساٹھ روٹیاں لیں اور انہیں ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کر دیا‘ اس واقعہ کو ایک سال ہو گیا ہے کیا اس سے میری قسم کا کفارہ ادا ہو گیا ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر مذکورہ الفاظ آپ نے طلاق کے قصد سے کہے تو اس سے ایک طلاق واقع ہو گئی تھی اور یہ ظہار کی صورت نہیں تھی‘ لہٰذا آپ پر ظہار کا کفارہ بھی واجب نہیں ہے بلکہ وہ ایک طلاق ہے‘ کیونکہ آپ کی نیت طلاق کی تھی اور اس مسئلہ میں علما اک صحیح ترین قول یہی ہے کیونکہ نبی اکرم ؐ کا فرمان ہے :
((إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرىء ما نوى)) ( صحيح البخاري)
‘’ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کیلئے صرف وہی چھ ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب