سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(321) ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقوں کے بارے میں حکم

  • 9776
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1407

سوال

(321) ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقوں کے بارے میں حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مرد نے اپنی بیوی کو ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دے دیں‘ اس بارے میں حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی مرد اپنی کو ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دے دے مثلاً اس طرح کہے کہ ( میں تجھے تین طلاقیں دیتا ہوں) جمہور اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ اس سے عورت پر تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے اور صرف ایک ہی صورت میں حلال ہوتی ہے کہ اس کے بعد کسی اور شخص سے برضا و رغبت شادی کرے‘ حلالہ کی صورت میں نہیں اور پھر وہ شخص اسے مقاربت بھی کرے اور پھر موت یا طلاق کی صورت میں اس سے علیحدگی اختیار کر لے‘ ان اہل علم اور استد لال حضرت عمر بن خطاب ؓ کے اس عمل سے ہے کہ آپ نے تینوں طلاقوں کو لوگوں پر نافذ کر دیا تھا‘ بعض دیگر اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ یہ ایک طلاق شمار ہو گی اور شوہر کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ حلال ہو گی ‘ ان حضرات کا استد لال صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی اس حدیث سے ہے:

((كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم)) ( صحيح مسلم )

‘’ رسول اللہ ؐ کے عہد میں‘ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کے عد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں انہیں مہلت دی گئی تھی لہٰذا اسے ہم نافذ کر دیں گے چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا۔‘‘

صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ابو الصھباء نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم ؐ کے عہد میں ‘ حضرت ابو بکر ؓ کے عہد اور حضرت عمر ؓ کے عہد کے پہلے تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک قرار نہیں دیا جاتا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا: ان کا استد لال اس حدیث سے بھی ہے جسے امام احمد نے مسند میں جید سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ابو رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں جس کی وجہ سے  انہیں بہت غم ہوا تو نبی اکرم ؐ نے اپنی کی بیوی کو واپس لوٹا دیا تھا اور فرمایا تھا ’’یہ ایک طلاق ہے۔‘‘ انہوں نے اس حدیث کو اور اس سے پہلی حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں ایک طلاق ہے تا کہ ان دو حدیثوں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ...٢٢٩﴾... سورة البقرة

‘’ طلاق (جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے صرف ) دو بار ہے۔‘‘

اور ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ...٢٣٠﴾... سورة البقرة

’’پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے تو اس (پہلے شوہر) کیلئے حلال نہ ہوگی۔‘‘ کے درمیان تطبیق دی جا سکے۔

صحیح روایت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ کا بھی ایک قول یہی ہے کہ جب دوسری روایت کے مطابق ان کا دوسرا قول اکثر لوگوں کے قول کے مطابق ہے‘ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا قول حضرت علی عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام ؓ سے بھی مروی ہے‘ تابعین کی ایک جماعت‘ محمد بن اسحاق صاحب ’’السیرة‘‘ اور مقتدین و متاخرین اہل علم کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور آپ کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اس قول کو پسند فرمایا ہے‘ میں بھی اسی قول کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں‘ کیونکہ اس سے تمام نصوص کے مطابق عمل بھی ہو جاتا ہے اور اس میں مسلمانوں کے ساتھ رحمت اور نرمی بھی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 303

محدث فتویٰ

 

تبصرے