سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) حاملہ کی طلاق کا حکم

  • 9772
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1915

سوال

(317) حاملہ کی طلاق کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور دوسری عورت سے شادی کے پانچ ماہ بعد معلوم ہوا کہ پہلی بیوی نے میری بیٹی کو جنم دیا ہے‘ کیا یہ طلاق جائز تھی یا نہیں؟ طلاق دیتے وقت مجھے علم نہیں تھا کہ میری بیوی حاملہ ہے‘ کیا اسے واپس لانا جائز ہے؟ میں جب اپنی بیٹی کو دیکھنے گیا تو اس مطلقہ بیوی کے باپ نے اس مقررہ رقم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جو میں ہر ماہ اپنی بیٹی کو دینا چاہتا تھا‘ لہٰذا اب میں جب بھی بیٹی سے ملنے جاتا ہوں تو صرف کپڑے ہی لے کر جاتا ہوں‘ کیا میری کوئی اور بھی ذمہ داری ہے یا نفقہ نہ دینے کی وجہ سے مجھے گناہ تو نہ ہو گا ؟ رہنمائی فرمائیں ‘ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت عطا فرمائے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاملہ عورت کو طلاق دینا صحیح ہے اور حالت حمل میں طلاق واقع ہو جاتی ہے‘ یہ طلاق سنت ہی کی ایک قسم ہے جب کہ حائضہ کو طلاق دینا بدعت ہے‘ اسی طرح غیر عاملہ کو بھی اس طہر میں طلاق دینا بدعت ہے جس میں اس کے شوہر نے اس سے مقاربت کی ہو اور حمل واضح نہ ہو سکا ہو‘ بہر حال مذکورہ طلاق واقع ہو گئی ہے اور صحیح ہے اور اگر طلاق ایک یا دو ہیں تو عورت کی رضا مندی سے نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ رجوع جائز ہے اور اگر طلاقیں تین ہیں تو پھر وہ عورت تمہارے لئے حلال نہیں الا یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے ( اور وہ کسی خفیہ منصوبہ بندی کے بغیر ‘ برضا و رغبت از خود طلاق دے یا فوت ہو جائے )۔

حمل کی مدت کے دوران بیوی کا خرچہ آپ کے ذمہ تھا اور اگر آپ نے نفقہ نہیں دیا حتی کہ اس نے بچے کو جنم دے دیا تو نفقہ ساقط ہو جائیگا ‘ آپ کی بچی کا نفقہ تو آپ پر واجب ہے اور اگر بچی کا نانا اس نفقہ کو ادا کرنا چاہتا ہے تو یہ آپ سے ساقط ہو جائیگا اور اگر باہمی رضا مندی سے خرچہ کا مسئلہ حل ہو جائے تو ٹھیک‘ ورنہ اختلاف کی صورت میں اس مسئلہ کو شہر کے قاضی کی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ اس ماہوار نفقہ کا تعین کر دے‘ جس کی یہ بچی مستحق ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 301

محدث فتویٰ

تبصرے