سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) کنواری یا ثیبہ سے شادی کرنے والے کے لئے نماز با جماعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں

  • 9762
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1223

سوال

(307) کنواری یا ثیبہ سے شادی کرنے والے کے لئے نماز با جماعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دولہا کنواری بیوی کے ساتھ ایک ہفتہ اور یثبہ کے ساتھ تین دن گزارتا ہے اور گھر سے باہر نہیں نکلتا حتیٰ کہ نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے بھی نہیں جاتا کیا یہ سنت سے ثابت ہے کہ وہ نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے بھی گھر سے نہ نکلے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص کنواری لڑکی سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن قیام کرے، اور پھر باری تقسیم کر دے اور اگر شوہر دیدہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین دن گزارے  اور اگر وہ پسند کرے تو اس کے ہاں سات دن گزارے اور پھر باقی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات دن گزارے اس مسئلہ میں دلیل وہ روایت ہے جو ابو قلابہ نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے:

((من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الشيب أقام عندها سبعا وقسم واذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا ثم قسم )) ( صحيح البخاري)

’’سنت یہ ہے کہ اگر کوئی مرد شوہر دیدہ کے ہوتے ہوئے کسی کنواری لڑکی سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن گزارے اور پھر باری تقسیم کر دے اور اگر یثبہ سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین دن گزارے اور  پھر باری تقسیم کر دے۔‘‘

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت انسؓ نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔

حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے:

((أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما تزوج أم سلمة أقام عندها ثلاثا وقال لها : إنه ليس بك على أهلك هوان ، إن شئت سبعت لك وإن سبعت لك سبعت لنسائي)) ( صحيح مسلم )

نبی اکرمﷺ نے جب ان سے شادی کی تو ان کے ساتھ تین دن گزارے اور فرمایا کہ: اگر تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ سات دن گزارتا ہوں اور بھر باپی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات دن گزاروں گا۔‘‘

لیکن یاد رہے کہ جو شخص کنواری لڑکی سے شادی کرے یا یثبہ سے اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس وجہ سے مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے نہ جائے کہ اس نے شادی کی ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں، مذکورہ دونوں حدیثوں میں بھی اس طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 283

محدث فتویٰ

تبصرے