سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(303) والد کا بیٹی کو شادی پر مجبور کرنا حرام ہے

  • 9758
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1477

سوال

(303) والد کا بیٹی کو شادی پر مجبور کرنا حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باپ کی طرف سے میری ایک بہن ہے، میرے باپ نے اس کی مرضی اور رائے کے بغیر اس کی شادی کر دی جبکہ اس کی عمر21سال ہے عقد نکاح کے وقت گواہوں نے بھی یہ جھوٹی گواہی دے دی کہ یہ لڑکی راضی ہے،  نکاح فام پر بھی اس کے بجائے اس کی والدہ کے دستخط ہی کروا لئے گئے اور اس طرح یہ شادی ہو ئی جبکہ یہ اسے مسلسل مسترد کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اس عقد اور ان گواہوں کی گواہی کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بہن اگر باکرہ تھی، اور اس کے باپ نے اس مرد سے شادی پر اسے مجبور کیا ہے، تو بعض اہل علم کے مطابق یہ نکاح صحیح ہے کیونکہ ان کی رائے  میں باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیٹی کو اس شخص سے شادی پر مجبور کر سکتا ہے جس کو یہ پسند نہ کرتی ہو، بشرطیکہ وہ کفو(ہم پلہ) ہو لیک اس مسئلہ میں قول را حج یہ ہے کہ باپ یا کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لڑکی کو اس شخص سے شادی پر مجبور کرے جس کو وہ پسند نہ کرتی ہو خواہ وہ کفو ہی کیوں نہ ہو کیونکہ  نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

(( لا تنكح البكر حتى تستاذن )) ( صحيح البخاري)

’’کنواری لڑکی کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔‘‘

یہ حکم عام ہے، وارثں میں سے کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:

((البكرحتى تستاذنها أبوها )) ( صحيح البخاري)

’’کنواری لڑکی سے اس کا باپ اجازت طلب کرے۔‘‘

یہ حدیث گویا کنواری لڑکی اور باپ کے بارے میں نص ہے، نیز محل نزاع میں نص ہے، لہٰذا اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کا اپنی بیٹی کو ایسے شخص کے ساتھ شادی پر مجبور کرنا، جسے وہ پسند نہ کرتی ہو حرام ہے اور جو چیز حرام ہو وہ صحیح اور نافذ نہیں ہوتی کیونکہ اسے نافذ کرنا اور صحیح ماننا حدیث میں وارد ممانعت کے منافی ہے، شارع جس سے منع کر دے اس کے بارے میں شارع کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ امت اس کام کو نہ کرے اور اگر ہم اس شادی کو صحیح قرار دیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اس کام کو کر لیا شارع نے جس سے ہمیں منع کیا تھا اور ہم نے اسے گویا ان معاملات میں سے قرار دے لیا شارع نے جن کو مباع قرار دیا ہے، لہٰذا اس مسئلہ میں قول راحج یہ ہے کہ آپ کے والد نے آپ کی بہن کی شادی جو ایک ایسے شخص سے کی ہے جسے یہ پسند نہیں کرتی تو یہ شادی فاسد ہے اور عقد فاسد کے بارے میں  ضروری ہے کہ عدالت کی طرف رجوع کیا جائے۔

جھوٹے گواہوں نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے، جیسا کہ نبی اکرمﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

((ألا أخبركم بأكبر الكبائر ؟ )) ( جامع الترمذي)

’’کیا میں تمہیں یہ نہ بتائوں کہ کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟‘‘

آپﷺ نے جب یہ ذکر فرمایا تو آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر فرمایا:

((ألا وقول الزور قال: فما زال يكررها حتى قلنا: ليته سكت )) ( صحيح البخاري)

’’خبردار! جھوٹی بات، آپ ان کلمات کو اس قدر کثرت سے بار بار دہراتے رہے، حتیٰ کہ  صحابہ کرامؓ چاہنے لگے کہ کاش! اب آپ سکوت فرما لیں۔‘‘

(کیونکہ ان کلمات کی اس قدر کثرت کے ساتھ تکرار سے آپ کو زحمت ہو رہی تھی) ان جھوٹے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کریں، حق بات کہیں، حاکم شرعی کے سامنے حقیقت حاصل واضح کر دیں کہ انہوں نے جھوٹی گواہی دی ہے ور اب وہ اپنی اس گواہی سے رجوع کر رہے ہیں اس طرح اس لڑکی کی ماں کو بھی توبہ کر نی چاہیے کہ اس نے اپنی بیٹی کی جگہ جھوٹے دستخط کئے، یہ بھی گناہ گار ہے، اسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 279

محدث فتویٰ

تبصرے