سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(295) پانچویں بیوی سے شادی کی اور……

  • 9750
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1317

سوال

(295) پانچویں بیوی سے شادی کی اور……

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب آدمی کے پاس چار بیویاں موجود ہوں اور وہ پانچویں سے بھی شادی کر لے اور اس سے ایک یا ایک سے زیادہ بچے بھی ہوں تو کیا یہ بچے اس کی طرف منسوب ہوں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ پانچویں عورت سے نکاح کرنا باطل ہے اور اس پر اہل علم کااجماع ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ شیعہ کے سوا دیگر تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانچویں عورت سے نکاح کرنا حرام ہے، پانچویں عورت سے نکاح کرنے والے پر حد قائم کرنے کے بارے میں مشہور اختلاف ہے، جسے قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں اور دیگر اہل علم نے بھی ذکر کیا ہے۔

بچے کے اس کی طرف الحاق کے بارے میں تفصیل ہے ، اور وہ یہ کہ اگر یہ شخص جہالت یا شبہ یا تقلید کی وجہ سے اس نکاح کو حلال سمجھتا ہو تو بچے اس کے ساتھ الحاق کیا جائے گا ورنہ الحاق نہیں کیا جائے گا۔ صاحب ’المغنی‘ وغیرہ نے اس مفہوم کو اس شخص کے بارے میں بات کرتے ہوئے بیان کیا ہے جو کسی عورت سے اس کی عدت ہی میں شادی کر لے اور یہ معلوم ہے کہ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ عورت سے اس کی عدت میں نکاح کرنا باطل ہے۔ لیکن اس کے باوجود نسب کا الحاق نکاح کرنے والے سے ہو گا جبکہ اس نے نکاح شبہ کی بنیاد پر کیا ہو۔ یعنی اسے معلوم نہ ہو کہ یہ عورت عدت میں ہے یا یہ معلوم نہ ہو کہ عدت والی عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ جب اس صورت میں نسب کا الحاق نکاح کرنے والے سے ہو گا تو پانچویں بیوی کی اولاد کا اس سے بالاولی الحاق ہو گا کیونکہ عدت والی عورت سے نکاح کے باطل ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں جبکہ پانچویں بیوی سے نکاح کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، ان جیسے لوگوں کا اختلاف تو اگرچہ ناقابل التفات ہے مگر اس میں بعض ظاہر یہ کا بھی اختلاف ہے جیسا کہ قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور پھر اَدلہ شرعیہ اس بات پر دلات کناں ہیں کہ شارع کی رغبت یہ ہے کہ انساب کی حفاظت کی جائے اور انہیں ضائع ہونے سے بچایا جائے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حفاظت انساب کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے اور کسی بھی نسب کو ضائع نہ کیا جائے جب تک اس کے لئے کوئی شرعی سبیل موجود ہو۔ بلا شک شبہ حدود کو ساقط کر دیتا اور الحاق نسب کا تقاضا کرتا ہے ۔ شبہ کی وجہ سے حد کو ساقط کر دیتشا اور الحاق نسب کا تقاضا کرتا ہے۔ شبہ کی وجہ سے حد کو ساقط کر دیا جاتا ہے لیکن یہ امر اس بات سے مانع نہیں ہوتا کہ اسے حد سے کم یعنی سزائے تعزیر دی جائے اور اس کے باوجود نسب کا الحاق اسی کی طرف ہوتا ہے تاکہ تمام مصالح شرعیہ کو جمع کیا جا سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 273

محدث فتویٰ

تبصرے