سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) یہ شغار اور حرام ہے

  • 9742
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1142

سوال

(287) یہ شغار اور حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سائل نے یہ پوچھا ہے کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایک شخص کی شادی ہوئی ہے جس کی صورت مشکوک ہے اور وہ یہ کہ اس شخص نے دوسرے کے  ساتھ یہ طے کیا ہے کہ یہ اپنی بیٹی کی اس کے ساتھ اس شرط پر شادی رے گا کہ وہ اپنی بہن کا اس کے بیٹے کو رشت دے اور ہر ایک نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ عورت کو طے شدہ لباس اور زیورات بھی دے گا تو کیا یہ نکاح صحیح ہے یا یہ شغار ہے جو کہ حرام ہے؟ اگر یہ شغار ہے تو وہ اب کیا کریں اور اگر یہ نکاح شغار نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ شغار کیا ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ صورت جو آپ نے ذکر کی ہے بلا شک و شبہ شغار ہی ہے کیونکہ اس میں مہر کے بجائے صرف کپڑوں اور زیورات کا ذکر ہے  جبکہ ہمارے آج کل کے وقت میں کپڑوں اور زیورات کو مہر نہیں سمجھا جاتا بلکہ مہر کے لئے ضروری ہے کہ وہ نقدی کی نقدی کی صورت میں ہو اور پھر ان میں سے ہر ایک نے مہر مثل سے کم پر شادی کی ہے اور بلا شک یہ شغار ہے، اس صورت میں مہر میں دو چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ایک مال اور دوسری شرمگاہیں، یعنی ان میں سے ہر ایک نے جو مال خرچ کیا ہے، وہ اور دوسری شرم گاہ مہر ہے اور یہ ناجائز اور حرام ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسـٰفِحينَ...٢٤﴾... سورة النساء

’’اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اور اس طرح کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ (نکاح) سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت رانی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے صرف مال کو مہر قرار دیا ہے  چنانچہ ارشاد ہے:

﴿أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم ...٢٤﴾... سورة النساء

’’مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو۔‘‘

لیکن ان دونوں آدمیوں نے جو مہر مقرر کیا ہے وہ مال بھی ہے اور شرمگاہ بھی، لہٰذا یہ حرام ہے اور شغار میں داخل ہے اگر ان میں سے ہر ایک اپنی بیوی کو مہر مثل دیتا ہے، وہ بیوی کا کفو بھی ہوتا ہے، میاں بیوی دونوں اس شادی پر خوش بھی ہوتے تو اس صورت میں بعض اہل علم کے نزدیک یہ نکاح حلال ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک شغار نہیں ہے جبکہ بعض دیگر اہل علم نے اسے بھی شغار ہی قرار دیا ہے، لہٰذا بے شک اس سے بچ جانا ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس دور میں لوگوں میں امانت بہت کم ہو گئی ہے، وہ اپن وارث عورتوں کی مصلحت کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنی ذاتی مصلحت کو اہمیت دیتے ہیں لہٰذا سد ذریعہ اور زالہ فساد کے لئے ضروری ہے کہ اس سے مطلقاً منع کردیا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 267

محدث فتویٰ

تبصرے