سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(285) ’’طلاق کی نیت سے نکاح‘‘ کے مسئلے میں فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین کی رائے

  • 9740
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1447

سوال

(285) ’’طلاق کی نیت سے نکاح‘‘ کے مسئلے میں فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین کی رائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے بیرون ملک سفر کا ارادہ کیا کیونکہ وہ معبوث ہے تو اس نے عفت و پاکدامنی کے حصول کے لئے یہ ارادہ کیا کہ ایک معین مدت تک کے لئے نکاح کر  لے اور بیوی کو نہ بتائے کہ وہ اسے طلاق دے دے گا تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کی نیت سے یہ نکاح دو حالتوں سے خالی نہیں ہے1۔ بوقت عقد یہ شرط ہو کہ وہ ایک ماہ یا ایک سال یا اپنی تعلیمی مدت کی تکمیل تک شادی کر رہا ہے تو یہ نکاح متعہ اور حرام2 ۔ یہ کہ اس کی نیت یہ ہو کہ اسے طلاق دے دے گا البتہ یہ شرط نہ ہو تو حنابلہ کے مشہور مذہب کے مطابق یہ  حرام اور عقد فاسد ہے کیونکہ فقہائے حنابلہ یہ کہتے ہیں کہ معنوی بات بھی مشروط ہی کی طرح ہوتی ہے اور نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرىء ما نوى)) ( صحيح البخاري)

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘

’’اگر آدمی کسی ایسی عورت سے شادی کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دی ہوں اور اس کی نیت یہ ہو کہ یہ اسے اس کے لئے حلال کرنا چاہتا ہے، لہٰذا شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا تو یہ نکاح فاسد ہو گا، خواہ اس میں طلاق کی شرط نہ بھی ہو کیونکہ منعوی بات مشروط ہی کی طرح ہوتی ہے اگر نیت تحلیل سے عقد فاسد ہو جاتا ہے تو نیت متعہ سے بھی عقد فاسد ہو جائے گا حنابلہ کا یہی قول ہے۔

اس مسئلہ میں اہل علم کا دوسرا قول یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ آدمی کسی عورت سے شادی کرے جبکہ اس کی نیت یہ ہو کہ وہ جب اس ملک سے واپس جائے گا تو اسے طلاق دے دے گا، جس طرح لوگ بیرون ملک حصول تعلیم وغیرہ کے لئے جاتے ہیں کیونکہ اس میں طلاق کی شرط نہیں ہوتی ہے اور اس میں اور متعہ میں یہی فرق ہے کہ متعہ کی صورت میں جب مدت مکمل ہو جائے تو میاں بیوی میں علیحدگی ہو جاتی ہے، خواہ شوہر چاہے یا نہ چاہے لیکن یہ صورت اس سے مختلف ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ طلاق نہ دے اور یہ شادی برقرار رہے شیخ الاسلام ابن یتیمیہؒ کا بھی ایک قول یہی ہے۔

میرے نزدیک بھی صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح متعہ نہیں ہے کیونکہ اس پر متعہ کی تعریف صادق نہیں آتی لیکن میرے نزدیک نکاح کی یہ صورت بھی حرام ہے کیونکہ اس میں عورت اور اس کے وارثوں سے دھوکا ہے اور نبی اکرمﷺ نے دھوکا اور فریب کو حرام قرار دیا ہے، اگر اس عورت کو معلوم ہو کہ یہ مرد اس سے صرف اس مخصوص مدت کے لئے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کبھی شادی نہ کرے، اس طرح اس کے وارث بھی اس پر کبھی راضی نہ ہوں کوئی انسان خود بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کسی ایسے انسان سے کرے، جس کی نیت یہ ہو کہ کچھ مدت کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا جب انسان اسے اپنے لئے پسند نہیں کرتا تو وہ دوسروں کے لئے اسے کیوں پسند کرتا ہے؟ یہ بات ایمان کے بھی خلاف ہے  ، نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

((لايؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه لنفسه )) ( صحيح البخاري )

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہ پسند نہ کرے جسے اپنے لئے پسند کرتا ہو۔‘‘

میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے اس قول کو ایک ایسے کام کے لئے ذریعہ بنا لیا ہے کہ جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اور وہ یہ کہ وہ ان ملکوں میں جاتے ہی صرف شادی  کے لئے ہیں جب تک چاہتے ہیں اس بیوی کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر جب اپنے ملک واپس لوٹتے ہیں تو اسے طلاق دے دیتے ہیں، لہٰذا اس مسئلہ میں یہ بہت خطرناک صورتحال ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس کا دروازہ بند کر دیا جائے کیونکہ اس میں دھوکا اور فریب بھی  ہے اور پھر اس سے بے حیائی اور بدکاری کا دروازہ بھی کھلتا ہے، لوگ جاہل ہیں اور اکثر لوگوں کی خواہش نفس انہیں حدود الہٰی پامال کرنے سے نہیں روکتی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 265

محدث فتویٰ

تبصرے