السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں تعلیم کی غرض سے بیرون ملک کے سفر کا ارادہ رکھتا ہوں تو کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں اس نیت سے وہاں جا کر شادی کروں کہ واپسی کے وقت طلاق دے دوں گا اور اپنی اس نیت کے بارے میں عورت کے وارثوں کو نہ بتائوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور اہل علم کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں کہ جب آدمی محل سفر میں شادی کرے اور نیت یہ ہو کہ واپسی کے وقت وہ بیوی کو طلاق دے دے گا بعض علماء نے اس میں توفق کیا ہے اور اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ نکاح متعہ ہی کی صورت نہ ہو لیکن یہ نکاح متعہ نہیں ہے کیونکہ متعہ میں تو معلوم مدت کی شرط ہوتی ہے یعنی یہ کہ وہ ایک یاد دو ماہ بعد طلاق دے گا اور ایک دو ماہ کی اس مدت کے بعد دونوں کا یہ نکاح باقی نہیں رہے گا، تو یہ ہے نکاح متعہ، لیکن نکاح کی مذکورہ صروت میں یہ شرط نہیں لیکن اس کی نت یہ ہے کہ وہ اس ملک سے واپسی کے وقت طلاق دے دے گا تو اس نیت سے یہ نکاح متعہ نہیں بن جائے گا۔ کیونکہ وہ اسے طلاق دے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں رغبت رکھے اور اسے طلاق نہ بھی دے تو جمہور اہل علم کے صحیح قول کے مطابق یہ نکاح متعہ نہیں ہے اور پھر لگوں کو اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے کیونکہ انسان کی بسا اوقات اپنے بارے میں فتنہ کا ڈر ہوتا ہے۔ فتنہ سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ اسے مناسب بیوی مہیا کر دیتا اور وہ اس سے شادی کر لیتا ہے اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وطن واپسی کے وقت اسے طلاق دے دے گا کیونکہ یہ بیوی اس کے اپنے ملک کے حالات میں مناسب نہیں ہوتی یا طلاق کے کچھ دیگر اسباب بھی ہو سکتے ہیں تو نیت طلاق صحت نکاح سے مانع نہیں ہے۔ پھر یہ نیت بدل بھی سکتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ شادی کرنے والا اس میں رغبت کے باعث اسے اپنے ملک میں بھی لے جائے۔ اس صورت میں بھی اس کی نیت اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب