السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری آمدنی محدود اور اولاد زیادہ ہے تو کیا میرے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپنانا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کیلئے منصوبہ بندی جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم...﴿٣١﴾... سورة الاسراء
’’ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔‘‘
ہاں کئی طریقے ایسے ہیں جن کی وجہ سے حمل میں تاخیر ہو جاتی ہے مثلاً بچے کی رضاعت کے دنوں میں عموماً حمل قرار نہیں پاتا۔ طہارت کے ایک یا دو ہفتے بعد مباشرت کی جائے۔ تو اس سے بھی عموماً حمل قرار نہیں پاتا کیونکہ عموماً حمل اس صورت میں قرار پاتا ہے جب حیض سے عورت کے فارغ ہونے کے فورًا بعد مباشرت کی جائے‘عزل کے طریقے کو استعمال کر کے بھی حمل کو مؤخر کیا جا سکتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انزال شرمگاہ سے باہرکر دیا جائے اور اگر میاں بیوی اس پر متفق ہوں تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح چالیس دن سے پہلے کسی مباح دوا کے ساتھ صحیح مقصد کی خاطر نطفہ کا اسقاط بھی جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب