سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(232) مہر میں مبالغہ آرائی

  • 9687
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1337

سوال

(232) مہر میں مبالغہ آرائی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ‘ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے‘ مہر کی رقم بہت زیادہ طلب کرتے ہیں اور بیٹیوں کی شادی کے وقت وہ ایک بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ دیگر شرائط اس کے علاوہ ہوتی ہیں تو کیا اس طریقے سے لیا ہوا مال حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حکم شریعت یہ ہے کہ مہر میں تخفیف و تقلیل ہو اور اس میں بہت زیادہ رغبت نہ ہو تاکہ اس سلسلہ میں وارد احادیث پر عمل ہو سکے۔ شادی کو آسان بنایا جا سکے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی صفت و پاک دامنی کا اہتمام کیا جا سکے‘ وارثوں کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے بھی رقم کا مطالبہ کریں کیونکہ یہ ان کا حق نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف عورت کا حق ہے ہاں البتہ باپ کوئی ایسی شرط عائد کر سکتا ہے جس سے بچی کو بھی کوئی نقصان نہ ہو اور نہ اس کی شادی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو اور اگر وہ ہر قسم کی شرط کو ترک کر دے تو یہ اس کیلئے بہت بہتر اور افضل ہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 ﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم ۚ إِن يَكونوا فُقَر‌اءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ...٣٢﴾... سورة النور

’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو) اور اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے خوش حال کر دے گا۔‘‘

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مروی حدیث میں ہے‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 ((خير الصداق أيسره )) ( سنن أبي داؤد)

’’بہترین مہر وہ ہے جو (دینا) آسان ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور جب ایک خاتون نے اپنے آپ کو نبی اکرمﷺ کیلئے ہبہ کر دیا تھا اور آپ نے اس کی ایک صحابی سے شادی کا ارادہ فرمایا تھا تو اسے حکم دیا:

 ((إلتمس ولو كان خاتما من حديد )) (صحيح البخاري )

’’مہر کا انتظام کرو خواہ وہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

اور جب اسے لوہے کی انگوٹھی بھی میسر نہ آ سکی تو آپﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس عورت کو قرآن حکیم کی وہ سورتیں سکھا دے جن کے متعلق اس نے بتایا تھا کہ وہ اسے زبانی یاد ہیں۔ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم تھا (جو آج کے تقریباً ایک سو تیس ریال کے برابر ہے) اور آپ کی صاحبزادیوں کا مہر چار سو درہم تھا (جو آج کے قریباً سو ریال کے برابر ہے) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 ﴿قَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...٢١﴾... سورة الاحزاب

’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ(ﷺ) کی ذات میں بہترین اور عمدہ نمونہ ہے۔‘‘

شادی کے اخراجات جس قدر کم ہوں گے‘ مردوں اور عورتوں کے لئے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا آسان ہوگا‘ فواحش و منکرات میں کمی ہوگی وار امت کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور شادی کے اخراجات میں جس قدر اضافہ ہوگا‘ لوگ زیادہ مہر کی رغبت کریں گے تو شادیاں کم اور بدکاریاں زیادہ ہوں گی اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی زندگی تعطل کا شکار ہو جائے گی۔ الا ماشاء اللہ۔ لہٰذا میری تمام مسلمانوں کو‘ خواہ وہ کسی بھی جگہ رہ رہے ہوں‘ یہ نصیحت ہے کہ وہ شادی و نکاح کو آسان بنائیں۔ اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں‘ زیادہ مہر کا مطالبہ نہ کریں‘ ولیمہ کی دعوتوں میں بھی تکلف سے اجتناب کریں اور صرف شرعی ولیمہ پر اکتفا کریں جس کی وجہ سے بہت زیادہ اخراجات برداشت نہیں کرنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی اصلاح فرمائے اور انہیں ہر چیز میں سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص198

محدث فتویٰ

تبصرے