السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے دوسرے سے رشتہ طلب کیا تو اس نے اسے ہاشمی سمجھتے ہوئے رشتہ دے دیا پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہاشمی نہیں ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب عقد مذکور میں دیگر ساری شرائط موجود ہوں تو نکاح صحیح ہے اور اگر عورت کے ولی نے رشتہ طلب کرنے والے سے یہ شرط لگائی ہو کہ اس کا ہاشمی ہونا ضروری ہے اور پھر بعد میں معلوم ہوا ہو کہ وہ ہاشمی نہیں ہے تو اسے اختیار ہے کہ اپنی عزیزہ کو اس کے نکاح میں رہنے دیا یا اس سے طلاق کا مطالبہ کرے اور اگر اس نے اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیا ہو تو وہ خاتون تمام مہر کی حق دار ہو گی اور اگر وہ طلاق دینے سے انکار کردے تو دونوں اس معاملہ کو شرعی حاکم کے پاس لے جائیں تاجکہ وہ شریعت کی روشنی میں ان دونوں کا فیصلہ کر دے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((إن أحق أن يوفى به ما استحللتم به الفروج)) ( صحيح البخاري)
’’ جن شرطوں کو پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے ، وہ ہیں جن کے ذریعے تم شرمگاہوں کو حلال کرتے ہو۔‘‘
اور اگر ہاشمی ہونے کی باقاعدہ شرط نہ لگائی گئی ہو بلکہ ہاشمی ہونے کے بارے میں اس کی بات کو صحیح مان لیا گیا ہو اور نکاح کے لئے اسے شرط قرار نہ دیا گیا ہو تو میرے علم کے مطابق اسے اختیار نہیں ہے کیونکہ عرب ایک دوسے کے لئے کفو ہیں اور خواہ وہ ہاشمی ہوں یا نہ ہوں۔ بلکہ علماء کی ایک جماعت نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے لئے کفو ہیں بشرطیکہ وہ دین دار ہوں خواہ شوہر عربی اور بیوی عجمی یا مولیٰ ہو یا صورت حال اس کے برعکس ہو۔ مذکورہ بالا شرعی دلائل کی روشنی میں یہ قول بے حد قوی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب