السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک سائل نے یہ سوال پوچھا ہے کہ قبیلی اور خضیری کے کیا معنی ہیں او ان کی آپس میں شادی کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ایک جزئی مسئلہ ہے جو لوگوں میں معروف ہے قبیلی سے مراد وہ شخص ہے جو کسی معروف قبیلہ کی طرف سے منسوب ہو جسے قحطانی ، سبیعی، تمیمی، قریشی اور ہاشمی وغیرہ۔ ان کو قبیلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے اپنے قبییلہ کی طرف منسوب ہیں اور خضیری علاقہ نجد کے لوگوں کی اصطلاح ہے کہ نجد کے علاوہ کسی اور جگہ یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوتی اور اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی مخصوص قبیلہ کی طرف منسوب نہ ہو یعنی عربی تو ہو لیکن اس کا کوئی معروف قبیلہ نہ ہو اور وہ قحطانی ، تمیمی ، یا قریشی کی طرح اپنے قبیلے کی طرف منسوب نہ ہو یعنی وہ عربی ہو، اس کی زبان بھی عربی ہو، عربوں ہی میں پلا بڑھا ہوا اگر معروف ہوا اور اس کی جماعت بھی معروف ہو۔
عربوں کے عف میں مولیٰ اس شخص کوکہتے ہیں جو اصل میں مملوک غلام ہو مگر اسے آزاد کردیا گیا ہو، مولیٰ کی جمع موالی ہے۔ وہ عجمی وہ ہیں جو عربوں کی طرف منسوب نہ ہوں یعنی ان کا تعلق عجمی خاندانوں سے ہو عربی خاندانوں سے نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق ان مختلف لوگوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ تقویٰ کے بغیر ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے خواہ کوئی قبیلی ہو یا خضیری ، مولیٰ ہو یا عجمی یہ سب کے سب برابر ہیں ان میں سے کسی کو کسی پر بجز تقویٰ کے کوئی فضلیت حاصل نہیں جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا۔
(ألا لا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر علي أسود ولا أسود على أحمر إلا بالتوى )) (مسند احمد)
’’ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر تقویٰ کے بغیر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے اور کسی سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر تقویٰ کے بغیر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا ۚ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ ﴿١٣﴾... سورة الحجرات
’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پید ا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اور اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز و ہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
قدم زمانہ سے عربوں میں یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے رشتے صرف انہی لوگوں کو دیتے تھے جن کا تعلق ایسے قبائل سے ہوتا جنہیں وہ جانتے تھے اور اس شخص کو وہ رشتہ نہیں دیتے تھے جس کا کسی قبیلے سے تعلق نہ ہوتا تھا اور یہ عادت اب تک عربوں میں باقی ہے۔
بعض لوگ چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور وہ خضیری، مولیٰ اور عجمی کو بھی رشتہ دے دیتے ہیں چنانچہ خود نبیﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام اسامہ بن زید بن حارثہؓ کی شادی فاطمہ بنت قیسؓ سے کر دی تھی جو کہ قریشی ہیں اسی طرح ابو حذیفہ بن عتبہؓ کی بھی شادی قرشی خاندان میں ہوئی تھی اور اس بات کی کوئی پرواہ نہکی گئی کہ وہ آزاد کردہ غلام ہیں صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے زمانہ سے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن اس کے بعد خصوصاً نجد اور بعض دیگر علاقوں میں لوگوں نے غیر عربوں کو رشتے دینے ترک کردیئے اور اس بارے میں بہت تشدد سے کام لینا شروع کردیا جیسا کہ ان کے آبائو اسلاف سے اور اس کی روایت چلی آ رہی ہے اور بعض اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ ان کے قبیلے کے لوگ انہیں اس طرح کی باتیں کر کے ایذا پہنچائیں گے کہ تم نے فلاں شخص کو کیوں رشتہ دیا ہے اور اس سے قبیلہ میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے انساب میں اختلاط آ جاتا ہے اور کئی دیگر خرابیاں بھی پیدا ہو تی ہیں لہٰذا وہ اس طرح کے کئی عذر پیش کرتے ہیں جو بسا اوقات صحیح بھی ہوتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ مصاہرت کے لئے انتخاب کا معیار دین و اخلاق ہونا چاہیے اگر دین و اخلاق موجود ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عربی ہے یا عجمی، آزاد کردہ غلام ہے یا خضیری یا کچھ اور اور اساس اور بنیاد دین و اخلاق ہونا چاہیے اور اگر بعض لوگوں کی رغبت اس میں ہو کہ وہ صرف اپنے قبیلہ ہی یں رشتہ دیں گے تو ہمارے علم کے مطابق اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب