سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) زنا سے حاملہ عورت سے نکاح

  • 9662
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2586

سوال

(207) زنا سے حاملہ عورت سے نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس یثبہ عورت سے نکاح کرنے کے متعلق کیا حکم ہے جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو اور حمل آٹھ ماہ کا ہو، کیا اس صورت میں نکاح باطل یا فاسد یا صحیح ہو گا؟ ہمارے ہاں دو علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، ان میں سے ایک نے تو اس نکاح کو باطل قرار دیا ہے لیکن دوسرے نے نکاح کو تو صحیح قرار دیا ہے لیکن وضع حمل سے قبل مباشرت کو حرام قرار دیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی آدمی زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح باطل ہے اور اس حالت میں اس کے لئے اس عورت سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة

’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے  نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق

’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا يحل لأمرىء بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)

’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن ایمان پررکھتا ہو تواس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘‘

نیز حسب ذیل ارشاد نبویﷺ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا تبؤطا حامل حتى تضع )) ( سنن أبي داؤد)

’’حاملہ عورت سے وضع حمل تک مباشرت نہ کی جائے۔‘‘

اس حدیث کو ابو دائودؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہ قول ہے کہ اس حالت میں عقد صحیح ہے ہاں البتہ مذکورہ احادیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ نے وضع حمل تک مباشرت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ نے مباشرت کو بھی جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔

((وللعاهر الحجر )) ( صحيح البخاري )

’’زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘

اس بچے کو اس عورت سے شادی کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عورت تو حمل کے بعد اس کا بچھونا بنی ہے۔ اس تفصیل سے مذکورہ علماء میں اختلاف کا سبب واضح ہو گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ بات کہی ہے جو اس کے اس امام نے کہی جس کی اس نے تقلید کی ہے لیکن ان میں سے صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح باطل ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور ممانعت پر ولالت کرنے والی احادیث کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص171

محدث فتویٰ

تبصرے