سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں

  • 9654
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1265

سوال

(199) ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری عمر چالیس سال ہے، اڑھائی سال سے میں نے دینی تعلیمات پر باقاعدہ عمل شروع کردیا ہے، ایک نوجوان نے مجھ سے منگنی بھی کی ہے لیکن حیلے بہانے سے اس نے یہ کہتے ہوئے میرے ساتھ خلوت اختیار کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ تو تو میری بیوی ہے اور بعض اہل علم نے شہرت کے بغیر شادی کو جائز قرار دیا ہے اور اس بات کو بھی کہ شادی کا اعلان بعد میں کردیا جائے نیز امام مالکؒ  کا مذہب ہے کہ ’’جو شخص شہرت کے بغیر نکاح کرتا ہے، اسے رجم نہ کیا جائے‘‘ تو اس بارے میں کیا حکم ہے۔ خصوصاً جب کہ میں تنہا رہتی ہوں اور میں نے اس نوجوان کو بھی منع کردیا ہے کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے نہ آیا کرے لیکن وہ کہتا ہے کہ تو میری بیوی ہے لہٰذا تو مجھے ملاقات سے کیوں منع کرتی ہے ؟ اور جب میں اس سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے تو پہلے دو گواہ اور میرے والد صاحب کو بلا لائو(تاکہ نکاح کیا جا سکے) تو اس نے کہا کہ ہاں میں ایسے دو گواہ تلاش کرتا ہوں جو شادی کی اس خبر کو فی الحال چھپا لیں  تاکہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ آپ میری بیوی ہیں اور پھر بعد میں میں خود ہی لوگوں کو یہ بتا دوں گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے، کسی کے لئے بھی یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عورت کے عصبات(ورثاء) میں سے کسی ولی کی اجازت کے بغیر اس سے نکاح کرے، شرعی ترتیب کے مطابق جو ولی عورت سے قریب ترین ہو گا وہ مقدم ہو گا،ولی کے بغیر نکاح فاسد اور غیر صحیح(غلط) ہے جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ‌ مِن مُشرِ‌كَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم ۗ وَلا تُنكِحُوا المُشرِ‌كينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا ۚ ... ﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

’’ اور تم (اے اہل ایمان!) شرک کرنے والی عورتوں سے (اس وقت تک)نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور یاد رکھو! ایک ایماندار لونڈی، مشرک عورت سے کہیں زیادہ بہتر ہے، خواہ مشرک عورت تمہیں کیسی ہی بھلی لگے، اور (اسی طرح) ایماندار عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘

اس آیت میں مومن مرد کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرک عورتوں سے شادی نہ کرو اور مومنہ عورت کے بارے میں فرمایا ہے کہ اسے مشرک کے نکاح میں نہ دو اور یہ اس لئے فرمایا کہ عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کرے۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم ۚ ... ﴿٣٢﴾... سورة النور

’’اور اپنی(قوم) کی بیوہ عورتوں کے  نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں(نکاح کر دیا کرو)‘‘

اس آیت میں بھی بیوہ عورتوں کے ولیوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ان کے نکاح کردیا کریں۔ نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰ‌ضَوا بَينَهُم بِالمَعر‌وفِ...٢٣٢﴾... سورة البقرة

’’ ان کو اپنے (پہلے) شوہروں کے ساتھ۔ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں۔ نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘

اگر نکاح کے لئے ولی کی اجازت شرط نہ ہوتی تو پھر اس کے نکاح سے روکنے کا کوئی اثر نہ ہوتا،نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

((لا نكاح إلا بولي)) ( سنن أبي داؤد)

’’ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘

نیز نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے۔

(( لاتنكح الأيم حتى تستامر ولاتنكح البكر حتى تستاذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها ؟ قال : أن تسكت )) ( صحيح البخاري)

’’ بیوہ عورت کا اس کے مشورے کے بغیر اور باکرہ(کنواری) کا اس کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا یا رسول اللہ! کنواری لڑکی کس طرح اجازت دے گی؟ آپﷺ نے فرمایا! اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔‘‘

لہٰذا اس آدمی کی اس بات سے جس نے حیلے بہانے سے خلوت اختیار کی ہے اور اس عورت سے کہا ہے کہ ’’تو میری بیوی ہے‘‘ یہ عورت اس کی بیوی نہیں بن جائے گی۔ بلکہ ضروری ہے کہ نکاح کے لئے ولی سے اجازت لی جائے، جہاں تک نکاح کی شہرت و اعلان کا تعلق ہے تو اس کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کا یہ مذہب ہے کہ نکاح کے لئے اعلان ضروری ہے جبکہ بعض دیگر کی یہ رائے ہے کہ بجائے اعلان کے شہرت ہی کافی ہے لیکن صورتحال جو بھی ہو اس آدمی کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹا اور (غلط) ہے کہ یہ عورت اس کی بیوی ہے ، اس دعویٰ کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔لہٰذا اس عورت کے لئے بھی یہ واجب ہے کہ وہ اپنے وارثوں سے رابطہ قائم کرے تاکہ وہ اسے میل جول سے منع کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 165

محدث فتویٰ

تبصرے