سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(179) شوہر کے اجداد بیوی کے محرم ہیں

  • 9634
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1400

سوال

(179) شوہر کے اجداد بیوی کے محرم ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شوہر کا نانا اس کی بیوی کا محرم شمار ہو گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شوہر کے تمام دادے اور نانے اس کی بیوی کے محرم ہیں کیونکہ محرمات کے ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور تمہارے صلبی(حقیقی) بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں۔‘‘

’’حلائل‘‘ کے معنی ہیں بیویاں، اور بیٹوں کے بیٹے بھی اپنے نانا کے بیٹے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبیﷺ نے حضرت حسن بن علیؓ کے بارے میں فرمایا تھا:

((إن ابنى هذا سيد)) ( صحيح البخاري )

’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔‘‘

اور وہ نبیﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کے فرزند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی حسب ذیل آیت کریمہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ ابن مریم، حضرت نوح و ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں:

﴿وَوَهَبنا لَهُ إِسحـٰقَ وَيَعقوبَ ۚ كُلًّا هَدَينا ۚ وَنوحًا هَدَينا مِن قَبلُ ۖ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ داوۥدَ وَسُلَيمـٰنَ ...﴿٨٤ وَزَكَرِ‌يّا وَيَحيىٰ وَعيسىٰ وَإِلياسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿٨٥﴾... سورة الانعام

’’اور ہم نے ان کو (حضرت ابراہیم کو) اسحاق اور یعقوب بخشنے(اور ) سب کو ہدایت دی اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے دائود اور سلیمان کو بھی… اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی یہ سب نیکو کار تھے۔‘‘

اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا کوئی باپ نہ تھاوہ تو حضرت مریم علیہ السلام کے بیٹے ہیں جو حضرت آدم، نوح اور ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے۔

﴿الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم...٢٣﴾... سورة النساء

’’تمہارے صلبی بیٹے۔‘‘

تو اس سے درحقیقت ان لے پالکوں کو خارج کرنا مقصود ہے جنہیں اہل جاہلیت متنبیٰ بنا لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے اپنی کتاب کریم میں منع کرتے ہوئے سورۃ الاحزاب میں ارشاد فرمایا ہے:۔

’’مومنو! لے پالکوں کو ان کے (اصلی ) باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 154

محدث فتویٰ

تبصرے