سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے

  • 9629
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5742

سوال

(174) وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَمَقتًا وَساءَ سَبيلًا ﴿٢٢ حُرِّ‌مَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّ‌ضـٰعَةِ وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَ‌بـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِ‌كُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ إِلّا ما قَد سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٢٣﴾... سورة النساء

’’اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے ناح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں)جو ہو چکا( سو ہو چکا) یہ نہایت بے حیائی اور (اللہ) کی ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا تم پر حرام کی گئی تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں اور بھانجیاں(اسی طرح ) تمہاری دودھ کی مائیں اور تمہاری دودھ کی بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں او رتمہاری مدخولہ بیویوں کی(کسی دوسرے شوہر سے) بیٹیاں اور اگر تم نے دخول کیا ہو توکوئی حرج نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے مگر جو ہو چکا(سو ہو چکا) بے شک اللہ بخشنے والا (اور ) رحم والا ہے۔‘‘

مندرجہ بالا آیات کا معنی و مفہوم کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ  نے ان عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے، ان آیات میں جن اسباب حرمت کو بیان کیا گیا ہے،ان کا تعلق تین چیزوں سے ہے اور وہ یہ ہیں۔1۔ نسب2۔ رضاعت اور3۔ مصاہرت۔

ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ ۚ... ﴿٢٢﴾... سورة النساء

’’اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر جاہلیت میں جو ہو چکا (سو ہو چکا)۔‘‘

سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس سے اس کے باپ یا دادا یا اس سے بھی اوپر کے انسان نے شادی کی ہو، دادا ہو یا نانا دونوں کے لئے ایک ہی حکم ہے اور اس اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں کہ ان کا اس عورت سے جنسی تعلق قائم ہوا ہے یا نہیں۔

جب کوئی آدمی کسی عورت سے صحیح عقد قائم کرے تو وہ اس کے بیٹوں، پوتوں، پڑپوتوں اور نیچے سب تک حرام ہو جاتی ہے  ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿حُرِّ‌مَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ... ﴿٢٣﴾... سورة النساء

’’ تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں او ربھتیجیاں اور بھانجیاں حرام کردی گئی ہیں۔‘‘

اس آیت میں ان رشتوں کو بیان کیا گیا ہے جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں اور وہ سات ہیں۔1۔ مائیں اور ان سے اوپر کی خواتین یعنی دادیاں اور نانیاں2۔بیٹیاں اور ان سے نیچے کی خواتین یعنی بھتیجیاں او بھانجیاں3۔ بہنیں خواہ وہ حقیقی ہوں یا صرف ماں کی طرف سے ہوں یا صرف باپ کی طرف سے 4۔ پھوپھیاں، ان سے آبائو اجداد کی بہنیں مراد ہیں خواہ وہ حقیقی پھوپھیاں ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے ۔ حقیقی پھوپھیاں وہ ہیں جو آپ کے باپ کی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے بہنیں ہوں او رباپ کی طرف سے پھوپھیاں وہ ہیں جن کو آپ کے باپ کی ان کے باپ کی طرف سے بہنیں ہوں اور ماں کی طرف سے پھوپھیاں وہ ہیں جو آپ کے باپ کی ان کی ماں کی طرف سے بہنیں ہوں۔5۔ خالائیں، اس سے مراد ماں اور نانی کی بہنیں ہیں خواہ وہ نانی سے بھی اوپر کی ہوں خواہ وہ ماں کی باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے بہنیں ہوں، حقیقی خالائیں وہ ہوتی ہیں جو آپ کی والدہ کی ان کے ماں باپ کی طرف سے بہنیں ہوں اور باپ کی طرف سے خالائیں وہ ہیں جو آپ کی والدہ کی ان کے باپ کی طرف سے بہنیں ہوں اور ماں کی طرف سے خالائیں وہ ہیں جو آپ کی والدہ کی ان کی ماں کی طرف سے بہنیں ہیں۔

یاد رہے کسی شخص کی خالہ یا پھوپھی اس کی اولاد در اولاد کی بھی خالہ او رپھوپھی ہے یعنی آپ کے باپ کی پھوپھی آپ کی پھوپھی اور آپ کے باپ کی خالہ آپ کی بھی خالہ ہے، اس طرح آ پ کی  ماں کی پھوپھی او رخالہ بھی  آپ کی پھوپھی اور خالہ ہے اسی طرح آپ کے دادوں ، نانوں، دادیوں، نانیوں کی پھوپھیاں اور خالائیں بھی آپ کی پھوپھیاں اور خالائیں ہیں۔8۔ بھتیجیاں خواہ وہ بھائی جس کی وہ بیٹیاں ہوں وہ حقیقی بھائی ہو یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف بھائی ہو یعنی آپ کے حقیقی بھائی کی بیٹی یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے بھائی کی بیٹی اور اس کی بیٹی کی بیٹی بھی آپ کے لئے حرام ہے، اس طرح اس کے بیٹے کی بیٹی بھی آپ کے حرام ہے اور اس سے نیچے کی تمام بیٹیاں بھی آپ کے لئے حرام ہیں۔9۔ اس طرح بھانجیوں کی حرمت کے بارے میں بھی یہی اصول ہے او ر یہ سات رشتے نسب سے حرام ہیں۔اور اس آیت کریمہ:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّ‌ضـٰعَةِ...٢٣﴾... سورة النساء

’’ اور تمہاری مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں۔‘‘

میں ان رشتوں کی طرف اشارہ ہے جو رضاعت کی وجہ سے حرام ہیں اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے۔

((يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب )) ( صحيح البخاري)

’’ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘

اور نسب سے جو رشتے حرام ہیں وہ مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، اور بھانجیاں ہیں تو ان کی نظیر جو رضاعی رشتے ہوں گے وہ بنی نبیﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کے مطابق حرام ہیں اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’ اور تمہاری ساس حرام کردی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جن کی تم پرورش کرتے ہو ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو(ان کی بیٹیوں کے ساتھ  نکاح کرنے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں او رتمہارے صلبی(حقیقی ) بیٹوں کی عورتیں بھی۔‘‘

اس آیت میں ان تین رشوں کا ذکر ہے ج ومصاہرت کی وجہ سے حرام ہیں یعنی بیویوں کی مائوں سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے لئے اپنی بیوی کی ماں اور دادی اور اوپر کی تمام خواتین بھی حرام ہیں خواہ وہ اس کے باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے اور یہ تمام خواتین محض عقد نکاح ہی سے حرام ہو جاتی ہیں۔

جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے تو اس مرد پر منکوحہ کی ماں حرام ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی محرم بن جاتی ہے خواہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ دخول نہ بھی کیا ہو مثلاً اس کی یہ بیوی فوت ہو جائے یا یہ اسے طلاق دے دے تو اس کی ماں سے نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہو گا اگر اس نے اپنی بیوی سے دخول نہیں کیا تو پھر بھی اس کی ماں اس کے لئے حرام ہو گئی، وہ اس کے سامنے اپنے چہرے کو ننگا کر سکتی ہے، اس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے خلوت میں جا سکتی ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ محض عقد  نکاح سے اس کی بیوی کی ماں اور اس کی دادیاں نانیاں حرام ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ (بیویوں کی مائوں) کے عموم میں داخل ہیں اور عورت محض عقد ہی سے اپنے شوہر کی بیوی بن جاتی ہے اور اس پر ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَ‌بـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِ‌كُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جن کی تم پرورش کرتے ہو۔‘‘

سے مراد بیوی کی بیٹیاں اور اس کی اولاد کی وہ بیٹیاں جو کسی اور خاوند سے ہوں وہ بھی اس کے لئے حرام ہیں اور اس کی محرم ہیں ۔ اسی طرح اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کی بیٹیاں بھی اس کے لئے حرام ہیں لیکن اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہاں دو شرطین بیان فرمائی ہیں وہ یہ کہ  1بیوی کی پہلے خاوند سے بیٹی(ربیبیہ)  آدمی کی زیر پرورش ہو۔2۔اور بیوی  سے صحبت ہو چکی ہو۔ ان میں سے پہلی شرط جمہور اہل علم کے نزدیک اغلبی ہے جس کا کوئی مفہوم نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مدخولہ بیوی کی بیٹی مرد کے لئے حرام ہے خواہ وہ اس کی پرورش بھی نہ بھی ہو اور دوسری شرط یعنی’جن کیساتھ تم نے دخول کیا ہو‘ یہ شرط اصل مقصود ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ  نے اس کا مفہوم بھی ذکر فرمایا ہے۔ جبکہ پہلی شرط کا مفہوم بیان نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ اس شرط کا مفہوم معتبر نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ  کے مفہوم کا اللہ تعالیٰ نے اعتبار کیا ہے اسی وجہ سے تو فرمایا کہ اس پر ارشاد باری تعالیٰ

﴿وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی۔‘‘

سے مراد حقیقی بیٹے کی بیوی ہے خواہ وہ اس سے بھی نیچے کے درجے میں ہو، وہ بھی محض عقد نکاح ہی سے اس کے باپ پر حرام ہے، اس طرح پوتے کی بیوی بھی محض عقد ہی سے دادا پر حرام ہو جاتی ہے لہٰذا اگر کوئی مرد کسی عرت سے صحیح عقد کرے اور پھر اسے فوراً طلاق دے دے تو وہ اس کے باپ دادا اور اس سے بھی اوپر کے تمام لوگوں کے لئے بھی حرام ہو جائے گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ :

﴿وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں (بھی حرام ہیں)۔‘‘

کے عموم کا یہی تقاضا ہے اور عورت محض عقد ہی سے اپنے شوہر کی بیوی بن جاتی ہے۔

یہ ہیں وہ تین اسباب جو موجب حرمت ہیں یعنی1۔ نسب۔2۔ رضاعت ۔3۔ مصاہرت، نسب کی وجہ سے سات قسم کے رشتے حرام ہیں۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہیں جو نسب کی نظیر ہیں کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے۔

((يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب )) ( صحيح البخاري )

’’رضاعت سے بھی دو رشتے حرام ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘

اور مصاہرت کی وجہ سے چار قسم کے رشتے حرام ہیں جن ذکر سورہ نساء کی آیات23/22 میں ہے یعنی 1۔ وہ عورتیں جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو۔ 2۔ ساسیں۔3۔ جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی بیٹیاں اور4۔ تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں۔ اور رہا ارشاد باری تعالیٰ

﴿وَرَ‌بـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِ‌كُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ ...٢٣﴾... سورة النساء‘‘

’’ اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام  ہے)‘‘

تو یہ حرمت، ابدی نہیں ہے کیونکہ دونوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے، بیوی کی بہن شوہر کے لئے حرام نہیں ہے حرام یہ ہے کہ دونوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دو بہنوں کا اکٹھا کرنا حرام ہے، یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری بیویوں کی بہنیں حرام ہیں لہٰذا اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق بائنہ دے دے اور اس کی عدت پوری ہو جائے تو وہ اس کی بہن سے شادی کر سکتا ہے کیونکہ حرام یہ ہے کہ دونوں بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھا جائے ، جس طرح دو بہنوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے ، اسی طرح کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو اکٹھا کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی حدیث سے یہ ثابت ہے یعنی جن عورتوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے وہ تین قسم کی ہیں۔1۔ دو بہنیں۔2۔ عورت اور اس کی پھوپھی اور3۔ عورت اور اس کی خالہ (جب کہ چچا اور ماموں کی بیٹی کو جمع کرنا جائز ہے۔)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 147

محدث فتویٰ

تبصرے