سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) کیا بے نمازی کو بیٹی کا رشتہ دینا جائز ہے؟

  • 962
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3036

سوال

(189) کیا بے نمازی کو بیٹی کا رشتہ دینا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی شخص کسی سے اس کی بیٹی کا رشتہ طلب کرے اور اس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا اور جس سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ہو وہ یہ کہے کہ اللہ اسے ہدایت دے دے گا تو کیا ایسی صورت میں وہ اسے رشتہ دے دے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اگر رشتہ طلب کرنے والا باجماعت نماز ادا نہیں کرتا تو وہ فاسق ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نافرمان اور مسلمانوں کے اس اجماع کا مخالف ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا سب سے افضل عبادت ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  مجموع الفتاویٰ (۲۲۲/۲۳) میں فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز باجماعت ایک ایسی عبادت ہے جس کی سب سے زیادہ تاکید آئی ہے۔ یہ سب سے بڑی اطاعت اور شعائر اسلام میں سب سے عظیم شعار ہے، تاہم اس فسق کی وجہ سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، لہٰذا اس کے لیے کسی مسلمان عورت سے شادی کرنا جائز ہے لیکن دوسرے لوگ جنہیں دین واخلاق پر استقامت ہو، اس سے بہتر ہوں گے، خواہ وہ مال و دولت اور حسب و نسب کے اعتبار سے اس سے کم مرتبہ ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

« إِذَا جَاءَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوْهُ  قَالُوْا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَاِنْ کَانَ فِيْهِ؟ قَالَ: اِذَا جَاءَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ وَخُلُقَهُ فَانْکِحُوْهُ۔ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ» (جامع الترمذی، النکاح، باب ماجاء، فيمن ترضون دينه وخلقه فزوجوه، ح: ۱۰۸۵ وقال الترمذی: هذا حديث حسن غريب وسنن ابن ماجه، النکاح، باب الاکفاء، ح: ۱۹۶۷)

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے، جس کے دین واخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پیدا ہو جائے گا۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر اس میں کوئی بات موجود ہو؟ آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے، جس کے دین واخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کر دو، آپ نے تین بار یہ کلمات دہرائے ۔‘‘

نیز صحیحین اور دیگر کتب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلَحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِيْنِهَا، فاَظْفَرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاکَ» (صحيح البخاري، النکاح، باب الاکفاء فی الدين، ح: ۵۰۹۰ وصحيح مسلم، الرضاعئ، باب استحباب نکاح ذات الدين، ح: ۱۴۶۶ واللفظ له)

’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے، اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین والی عورت سے نکاح میں کامیابی حاصل کرو، کامیابی وسعادت مندی سے ہم کنار ہوجاؤ گے۔‘‘

یہ دونوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مرد اور عورت کے اس سلسلہ میں دین اور خلق کے پہلو کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دے جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے راہنمائی فرمائی ہے کیونکہ روز قیامت اس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَيَومَ يُناديهِم فَيَقولُ ماذا أَجَبتُمُ المُرسَلينَ ﴿٦٥﴾... سورة القصص

’’اور جس روز (اللہ) ان کو بلائے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَلَنَسـَٔلَنَّ الَّذينَ أُرسِلَ إِلَيهِم وَلَنَسـَٔلَنَّ المُرسَلينَ ﴿٦ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيهِم بِعِلمٍ وَما كُنّا غائِبينَ ﴿٧﴾... سورة الأعراف

’’تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے، پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘

اگر رشتہ طلب کرنے والا بالکل نماز نہ پڑھتا ہو، نہ جماعت کے ساتھ اور نہ انفرادی طور پر تو وہ کافر اور خارج از اسلام ہے۔ ضروری ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے۔ اگر وہ توبہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لے گا بشرطیکہ توبہ پکی اور سچی ہو اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کی گئی ہو، ورنہ کافر اور مرتد ہونے کی وجہ سے اسے قتل کر دیاجائے گا اور غسل، کفن اور نماز جنازہ کے بغیر اسے غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس شخص کے کفر پر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ کتاب اللہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا فَأُولـئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ وَلا يُظلَمونَ شَيـًٔا ﴿٦٠﴾... سورة مريم

’’پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے، جنہوں نے نماز کو چھوڑ دیا (گویا اسے کھو دیا) اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے، سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی، ہاں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا۔‘‘

﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ﴾ کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ جب اس نے نماز ضائع کی اور خواہشات نفسانی کی پیروی کی تو اس وقت وہ مومن نہیں رہا۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوةَ وَءاتَوُا الزَّكوةَ فَإِخونُكُم فِى الدّينِ...﴿١١ ... سورة التوبة

’’اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنا شروع کردیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔‘‘

یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ دینی اخوت اقامت صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے، البتہ سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ تارک زکوٰۃ کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب کہ وہ اس کے وجوب کا تو اقرار کرے مگر محض بخل کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ کرے، لہٰذا ایمانی اخوت کے ثبوت کے لیے اقامت نماز ہی کی شرط باقی رہ گئی ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ترک نماز کفر ہے جس کی وجہ سے ایمانی اخوت کی نفی ہو جاتی ہے۔ یاد رہے ترک نماز فسق یا کفر دون کفر نہیں ہے کیونکہ فسق یا کفردون کفر، فاعل کو ایمانی اخوت کے دائرے سے خارج نہیں کرتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپس میں لڑائی کرنے والی مومنوں کی دو جماعتوں کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ فَأَصلِحوا بَينَ أَخَوَيكُم...﴿١٠﴾... سورة الحجرات

’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘

آپس میں لڑائی کرنے والی یہ دونوں جماعتیں اخوت ایمانی کے دائرے سے خارج نہیں ہوئیں، حالانکہ مومن سے قتال کرنا کفر ہے جیسا کہ اس صحیح حدیث میں ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ  اور کئی دیگر محدثین نے بروایت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

« سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ» (صحيح البخاري، الايمان، باب خوف المومن من ان يحبط عمله وهو لا يشعر، ح: ۴۸ وصحيح مسلم، الايمان، باب بيان قول النبی: ’’سباب المسلم فسوق… ح، ۶۴)

’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔‘‘

تارک نماز کے کفر کے سنت سے دلائل میں سے چند حسب ذیل ہیں:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

«اِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاةِ» (صحيح مسلم، الايمان، باب بيان اطلاق الکفر علی من ترک الصلاة، ح: ۸۲)

’’بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق، نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘

«اَلْعَهْدُ الَّذِی بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ کَفَرَ» (جامع الترمذي، الايمان، باب ماجاء فی ترک الصلاة، ح: ۲۶۲۱ وسنن النسائي، الصلاة، باب الحکم فی تارک الصلاة، ح: ۴۶۴، وسنن ابن ماجه، اقامة الصلاة، باب ماجاء فيمن ترک الصلاة، ح: ۱۰۷۹ ومسند احمد: ۵/ ۳۴۶)

’’ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز کا ہے۔ جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘

’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بات پر بیعت کی کہ وہ اہل حکومت سے حکومت کے بارے میں نہیں جھگڑیں گے الایہ کہ تم ان کے ہاں کھلم کھلا کفر دیکھو جس میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے برہان موجود ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، باب قول النبیﷺ سترون بعدی امور… حدیث: ۷۰۵۶)

اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں سے اس بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے، جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم بنا دیا ہے۔ الایہ کہ وہ ان کی طرف سے کسی صریح کفر کا ارتکاب دیکھیں، جس کے کفر ہونے کے بارے میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل موجود ہو۔ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد اس حدیث کو بھی دیکھیں جسے امام مسلم رحمہ اللہ  نے بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«سَتَکُونُ اُمَرَآءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ فَمَنْ عَرَفَ بَرِيئَ ـ وفی لفظ ـ فَمَنْ کَرِهَ فَقَدْ بَرِيئَ وَمَنْ اَنْکَرَ سَلِمَ وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَتَابَعَ قَالُوا اَفَـلَا نُقَاتِلُهُمْ قَالَ لَا مَا صَلُّوْا» (صحيح مسلم، الايمان، باب وجوب الانکار علی الامراء فيما يخالف الشرع وترک قتالهم ما صلوا، ونحو ذلك، ح: ۱۸۵۴)

’’عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جن کو تم پہچان لو گے اور ان کا انکار کرو گے۔ جس نے پہچان لیا وہ بری ہوگیا۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’جس نے ان کو ناپسند کیا، وہ بری ہوگیا۔ جس نے انکار کیا وہ سلامت رہا لیکن جس شخص نے رضامندی کا اظہار کیا اور جس نے ان کا اتباع کیا (تو وہ ہلاک ہوگیا)‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: کیا ہم ان کے خلاف لڑائی نہ کریں؟ فرمایا: ’’نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔‘‘ (لڑائی نہ کرو)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب وہ نماز پڑھیں تو پھر ان سے لڑائی نہیں کی جائے گی اور اس سے پہلے مذکور حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ  سے معلوم ہوا کہ ان سے جھگڑا نہیں کیا جائے گا، جب جھگڑا نہیں کیا جائے گا تو لڑائی بالاولیٰ نہیں کی جائے گی الایہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کریں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان موجود ہے۔ یہ ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے دلائل کہ تارک نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے جیسا کہ صراحت کے ساتھ اس حدیث میں بھی آیا ہے، جسے ابن ابی حاتم نے اپنی سنن میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں یہ وصیت فرمائی:

«لَا تُشْرِکُوا بِاللّٰهِ شَيْئًاْ وَلَا تَتْرُکُوا الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَهَا مُتَعَمِّدًاْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّةِ» (مجمع الزوائد للهيثمی: ۴/ ۲۱۶)

’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،اور نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرو کیونکہ جس شخص نے جان بوجھ کر ترک کردی، وہ ملت(اسلام) سے خارج ہو گیا۔‘‘

اس بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے آثار بھی موجود ہیں، مثلاً: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے فرمایا ہے:

«لَا اِسلامَ لِمَن ترک الصلاةْ ُ» (الترغيب والترهيب: ۱/ ۳۸۱ صحيح موقوفًا)

’’جس نے نماز ترک کردی اس کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘

عبداللہ بن شقیق نے کہا ہے کہ:

«کَانَ اَصْحَابُ النبی ٍ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْاَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ» (جامع الترمذی ، الايمان ، باب ما جاء فی ترك الصلاة)

’’اصحاب نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )نماز کے سوا اور کسی عمل کے ترک کو کفر قرار نہیں دیتے تھے۔‘‘

جہاں نقلی دلیل تارک نماز کو کافر قرار دیتی ہے، وہاں نظری دلیل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ جو شخص نماز کو حقیر جانے اور اس کی توہین کرے، تو وہ اسلام کو حقیر جانتا اور اس کی توہین کرتا ہے۔ اسلام میں ان کا حصہ اتنا ہوگا، جتنا نماز میں ان کا حصہ ہے، اسلام میں ان کی رغبت اتنی ہوگی، جتنی نماز میں ان کی رغبت ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ وہ شخص ترک نماز پر ہمیشہ اصرار نہیں کر سکتا، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے کیونکہ عادت اور طبیعت کے اعتبار سے یہ بات محال ہے کہ آدمی اس بات کی پکی سچی تصدیق بھی کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن رات میں اس پر پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا ہے اور ان کے ترک کر دینے کی وجہ سے سخت ترین سزا دے گا اور اس کے باوجود بندہ ترک نماز پر اصرار کرے۔ یہ بات قطعی طور پر محال ہے کیونکہ جو شخص اس کی فرضیت کی تصدیق کرتا ہو وہ کبھی اسے ترک نہیں کر سکتا کیونکہ ایمان اسے نماز پڑھنے کا حکم دے گا اگر اس کے دل میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسے نماز کا حکم دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے، اس شخص کی بات کو نہ سنو، جسے دلوں کے احکام اور اعمال کی خبر ہے نہ علم۔ مجموعۃ الحدیث، الصلاۃ ص: ۴۰۰۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ  نے یہ بالکل سچ بیان فرمایا ہے کہ انسان کے دل میں ایمان ہو تو یہ محال ہے کہ وہ نماز کو ترک کرے کیونکہ اسے بہت آسانی سے ادا کیا جا سکتا ہے، اوراسے ادا کرنے سے بہت زیادہ ثواب ملے گا، ترک کرنے کی صورت میں عذاب بھی بہت زیادہ ہوگا جب کتاب وسنت کے دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تارک نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے تو پھر یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان عورت سے شادی کرے کیونکہ نص اور اجماع سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـتِ حَتّى يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم...﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

’’اور (مومنو) مشرک عورتوں سے، جب تک وہ ایمان نہ لائیں، نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت، خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مہاجر عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾... سورة الممتحنة

’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘

یہ دو آیتیں جس بات پر دلالت کرتی ہیں، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور وہ یہ کہ مسلمان عورت کافر کے لیے حرام ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی بیٹی یا کسی عورت کاجس پر اسے ولایت حاصل ہے،  رشتہ کسی ایسے شخص کو دیتا ہے جو نماز نہیں پڑھتا تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اس عقد کے ذریعے سے وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک ایسا عقد ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق  انجام  پذیرنہیں ہوا ہے۔ بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» (صحيح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸، ۱۸)

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

جب شوہر کے نماز ترک کرنے کی وجہ سے نکاح فسخ ہو جاتا ہے، الایہ کہ وہ توبہ کرے اور نماز ادا کر کے اسلام کی طرف لوٹ آئے تو اس بے نمازی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جو نکاح ہی نیا کر رہا ہو؟ خلاصہ جواب یہ ہے کہ اگر رشتہ طلب کرنے والا یہ شخص نماز باجماعت ادا نہیں کرتا تو وہ فاسق ہے، کافر نہیں، اس حالت میں اسے رشتہ دینا جائز ہے لیکن دین وخلق والا کوئی دوسرا شخص اس سے بہر حال افضل ہے اور اگر وہ مطلقاً نماز نہیں پڑھتا، نہ جماعت کے ساتھ اور نہ انفرادی طور پر تو وہ کافر، مرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس کے لیے کسی حال میں بھی کسی مسلمان عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں الایہ کہ وہ سچی توبہ کرے، نماز پڑھنے لگے اور دین اسلام پر استقامت کا ثبوت دے۔

سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ منگیتر (لڑکی) کے والد نے جب کسی سے اس لڑکے اس فعل کے بارے میں پوچھا اور اس نے یہ جواب دیا کہ اللہ اسے ہدایت دے گا، تو مستقبل کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور اس کی تدبیر اس کے ہاتھ میں ہے، ہم تو اس بات کے مخاطب ہیں جسے ہم حال میں جانتے ہیں اور رشتہ طلب کرنے والے کا حال کفر پر مبنی ہے، اس حال میں اس کے لیے کسی مسلمان عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے ہدایت اور اسلام کی طرف رجوع کی امید رکھتے ہیں تاکہ اس کے لیے مسلمان عورتوں سے نکاح کرنا ممکن ہو جائے، اور اسے ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ237

محدث فتویٰ

تبصرے