السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ روایت ٹھیک ہےکہ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے کہا تھا کہ میری میت کو نبی کے حجرے کے پاس جا کر رکھ دینا اور اجازت طلب کرنا اگر دروازہ کھل جائے تو مجھے اندر دفن کر دینا اگر اجازت نہ ملے تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔چنانچہ جب آپ کا جنازہ رکھا گیا تو اندر سے آواز آئی کہ دوست کو دوست کے باس آنے دیا جائے۔(تفسیرِکبیر:جلد٥،ص٦٨٥، خصائلِ کبریٰ:ج٢،ص٢٨٢۔)؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!تفسیر کبیر میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں ہے،وہاں جو روایات موجود ہیں وہ اس سے مختلف ہیں مثلا: وَلَمَّا تُوُفِّيَ رِضْوَانُ اللَّه عَلَيْهِ دَفَنُوهُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا أَنَّ اللَّه تَعَالَى رَفَعَ الْوَاسِطَةَ بَيْنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ،۔ تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (10/ 135وَلَمَّا تُوُفِّيَ دُفِنَ بِجَنْبِهِ، فَكَانَ ثَانِيَ اثْنَيْنِ هُنَاكَ أَيْضًا تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (16/ 51)ان دونوں مقامات پرابوبکررضی اللہ عنہ کے فضائل میں تفصیلی بحث موجود ہے لیکن یہاں پر مذکورہ روایت نہیں ہے۔ ممکن ہےِآپ کی مراد یہ بات ہو : «أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (21/ 433)عرض ہے کہ یہ اثر یا کرامت بے سند ہے ، امام رازی نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا لہذا غیرمسموع ہے۔ نیزاس میں وصیت ابوبکررضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی نہیں ہے ۔ الغرض یہ کہ تفسیر رازی میں مذکورہ بات مکمل ہمین نہیں مل سکی بعض دوسری کتب میں یہ روایت ملتی ہے اس کی حقیقت آگے ملاحظہ ہو: اس معنی کی ایک روایت تاریخ دمشق لابن عساکر (30/ 436)میں موجود ہے ،مگر وہ بھی موضوع اور من گھڑت ہے،کیونکہ اس اس کی سند میں موجود ابو طاہر المقدسی نامی شخص کذاب ہے ۔مزید تفصیل کے لئے درج ذیل لنک پرکلک کریں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |