السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قصر نماز کتنے سفر پر لاگو ہوتی ہے۔ نیز یہ سفرایک جانب کا شمار ہو گا یا واپسی کا بھی اس میں شامل ہو گا۔ مثلا اگر قصر نماز ١٠ کلو میٹر پر لاگو ہوتی ہے اور میں نے ٥ کلو میٹر دور جانا ہےتو کیا واپسی کے جو ٥ کلومیٹر ہں وہ بھی اس میں شمار ہونگے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ صالح المنجد سے سفر کی مسافت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرمایا: الحمد للہ جمہور علماء کرام کے نزدیک قصر نماز اور روزہ افطار کرنے کے لیے اڑتالیس میل کا سفر ہونا چاہیے ۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں کہا ہے : ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) کا مسلک یہ ہے کہ : سولہ فرسخ سے کم مسافت کے سفر میں نماز قصرکرنا جائز نہيں ، اورایک فرسخ تین میل کا ہے ، تواس طرح اڑتالیس میل بنے گا ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ نے اس کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ : عسفان سے مکہ تک ، اورطائف سے مکہ تک ، اورجدہ سے مکہ تک ۔ تواس طرح نماز قصر کی مسافت دودن کے سفر کی ہوگي ، ابن عباس اورابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہی قول ہے ، اورامام مالک ، لیث ، امام شافعی رحمہم اللہ تعالی نے بھی یہی اختیار کیا ہے ۔ ا ھـ کلو میٹر میں تقریبا اسی ( 80 ) کلو میٹر کی مسافت بنے گی ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے سفر کے بارہ میں مجموع الفتاوی میں کہا ہے : جمہور اہل علم کے ہاں گاڑی میں تقریبا اسی کلومیٹر بنتا ہے ، اوراسی طرح ہوائي جہاز اورکشتیوں اوربحری جہازوں کی مسافت بنتی ہے ۔ اسی 80 کلومیٹر یا اس کے قریب کی مسافت کو سفر کا نام دیا جاتا ہے اورعرف عام میں سفر شمار کیا جاتا ہے ، اور مسلمانوں میں بھی یہ سفر معروف ہے ، لھذا اگر کوئي انسان اونٹ پر یا پیدل یا گاڑی یا پھر ہوائي جہاز یا بحری جہاز اورکشتیوں اتنی یا اس سےزيادہ مسافت طے کرکے تواسے مسافر قرار دیا جائے گا ۔ ا ھـ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 12 / 267 ) ۔ لجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا : نماز قصر کی مسافت کیا ہے ؟ ، اورکیا تین سوکلومیٹر سےزيادہ سفر کرنے والے ڈرائیور کے لیےنماز قصر کرنا جائز ہے ؟ کیٹی کا جواب تھا : جمہور علماء کرام کی رائے میں تقریبا اسی کلومیٹر کی مسافت پرنماز قصر کی جاسکتی ہے ، اورکوئي بھی ڈرائیوروغیرہ جب جواب کےشروع میں بیان کی گئي مسافت طے کرے تواس لیے نماز قصر کرنا جائز ہے ۔ ا ھـ دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 8 / 90 ) بعض علماء کرام کہتے ہيں کہ سفر کی مسافت کی تحدید نہیں کی جاسکتی بلکہ جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے اس میں سفر کے احکام شریعت ثابت ہونگے یعنی اس میں نماز قصر اورجمع کی جاسکتی ہے اورروزہ بھی چھوڑا جاسکتا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تمیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : دلیل تواسی کے ساتھ ہے جوجنس سفر میں نماز قصر اورروزہ چھوڑنا مشروع قرار دیتا ہے ، اورکسی بھی سفر کومختص نہيں کرتا ، اورصحیح بھی یہی قول ہے ۔ ا ھـ دیکھیں مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ( 24 / 106 ) ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گيا کہ : نماز قصر کی مسافت کیا ہے ، اورکیا بغیر قصر کے نماز جمع کی جاسکتی ہے ؟ توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا : بعض علماء کرام نے نماز قصر کرنے کے لیے تراسی ( 83 ) کلومیٹر کی مسافت مقرر کی ہے ، اوربعض کہتے ہیں کہ عرف عام میں جسے سفر کہا جائے اس میں نماز قصر ہوگي چاہے اس کی مسافت تراسی کلومیٹر نہ بھی ہو ، اورجسے لوگ سفر نہ کہيں وہ سفر نہیں چاہے وہ ایک سو کلو میٹر ہی کيوں نہ ہو ۔ یہی آخری قول شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی نے اختیار کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی نماز قصر کے جواز میں مسافت کی تحدید نہيں کی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی کوئي معین مسافت محدد نہیں فرمائی ۔ اورانس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل کی مسافت کے لیے یا پھر تین فرسخ کی مسافت کےلیے نکلتے تو نماز دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 691 ) ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں کوئي حرج نہیں کہ عرف عام میں اختلاف کی بنا پر انسان مسافت کی تحدید کے قول پر عمل کرلے ، اس لیے کہ یہ قول بعض ائمہ اورعلماء مجتھدین کا ، اس پرعمل کرنے میں انشاء اللہ کوئي حرج نہيں ، لیکن جب معاملہ مضبوط ہو توپھر عرف عام کی طرف رجوع کرنا ہی صحیح ہے ۔ اھـ دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ ( 381 ) نیز یہ بات یاد رہے کہ سفر میں صرف یکطرفہ مسافت کو ہی شمار کیا جاتا ہے ،آنے اور جانے کی دونوں مسافتوں کو شمار نہیں کرتے ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |