سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) شادی سے پہلے سوال نمبر2

  • 9589
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1453

سوال

(149) شادی سے پہلے سوال نمبر2

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل یہ عادت عام ہے کہ لڑکی یا اس کا والد رشتہ طلب کرنے والوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ وہ ثانوی یا یونیورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد بلکہ چند سال تک کسی ادارے میں پڑھانے کے بعد شادی کریں گے اور اس طرح بعض لڑکیاں شادی کے بغیر تیس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ہو جاتی ہیں، تو اس کے بارے میں آپ کی کیا نصیحت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالا سوال کا شیخ ابن عثیمین کے قلم سے جواب:

یہ بات نبی اکرمﷺ کے حکم کے خلاف ہے کیونکہ آپﷺ نے فرمایا  ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اسے نکاح دے دو‘‘ نیز آپﷺ نے فرمایا ہے:

((يامعشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج )) ( صحيح البخاري)

’’اے گروہ نوجوانان: تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو تو وہ شادی کر لے کیونکہ یہ نظروں کو نیچی رکھنے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے۔‘‘

شادی نہ کرنے سے وہ مقاصد فوت ہو جاتے ہیں جن کی خاطر شادی کی جاتی ہے لہٰذا میں عورتوں کے وارثوں، مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہوں گا کہ وہ تعلیم یا تدریس کی تکمیل کے بہانے شادی سے انکار نہ کریں کیونکہ عورت یہ شرط بھی عائد کر سکتی ہے کہ وہ نکاح کے بعد تکمیل تک اپنی تعلیم کو جاری رکھے گی یا ایک دو سال تک وہ تدریس کو جاری رکھے  گی اور بچوں میں مشغول نہیں ہو گی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہاں  البتہ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ کیا ہمیں واقعی اس بات کی ضرورت ہے کہ عورت ضرور یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کرے۔ میری رائے میں تو عورت اگر ابتدائی مرحلے کی تعلیم حاصل کرے، اسے اس قدر لکھنا پڑھنا آ جائے کہ وہ  کتاب اللہ اور اس کی تفسیر اور احادیث نبوی اور ان کی تشریح پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کر سکے تو یہ کافی ہے الا یہ کہ وہ ایسے علوم میں ترقی کرے جن کے بغیر لوگوں کے لئے چارہ کار ہی نہیں مثلاً ڈاکٹری وغیرہ کی تعلیم بشرطیکہ اس میں اختلاط جیسا کوئی ممنوع امرمانع نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 126

محدث فتویٰ

تبصرے