السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل جب کہ شرعی جنگیں نہیں ہیں تو کیا غلامی جائز ہے یا شرعی جنگوں کی وجہ سے یہ نبی اکرمﷺ کے زمانے کے ساتھ مخصوص ہے؟ دلیل سے واضح فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بے شک وہ جنگیں جو نبی اکرمﷺ اور کفار کے مابین تھیں، شرعی جنگیں تھیں اور ان میں قید ہونے والے بعض کفار کو غلام بھی بنایا گیا اور پھر خلفاء راشدین کے دور میں اور پھر تینوں خیر القرون میں بھی کفار اور مسلمانوں کے مابین شرعی جنگیں ہوئیں اور وہ بھی کافر قیدیوں کے ساتھ اسی طرح معاملہ کرتے تھے جس طرح نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ان کے ساتھ معاملہ ہوتا تھا کہ احسان کرتے ہوئے انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا یا فدیہ قبول کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا یا غلام بنا لیا جاتا تھا یا انہیں قتل کر دیا جاتا تھا بہرحال قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے مسلمان حکمران ان سے وہ معاملہ کرتے رہے جس میں مسلمانوں کی مصلحت ہوتی تھی، ائمہ امت کے اجماع کے مطابق بعد کے زمانوں میں بھی قیدیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا رہا جس طرح رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا لہٰذا آج بھی اگر مسلمانوں اور کفار کے مابین شرعی جنگیں ہوں، مسلمانوں کو فتح اور نصرت حاصل ہو اور کچھ کفار قیدی بن جائیں تو مسلمان حکمران کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں چھوڑ دے یا ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دے یا قتل کر دے یا غلام بنا لے یعنی آج بھی مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کے بارے میں وہ معاملہ کرے جس میں مسلمانوں کو مصلحت ہو اور اگر جنگیں شرعی نہ ہوں تو پھر کسی کو غلام بنانا جائز نہیں، ہاں البتہ اگر کسی کی غلامی شرعی جنگ سے پہلے ثابت ہو اور توالدوتوارث کے ذریعے اس کی غلامی برقرار رہی ہو تو وہ غلام ہی ہے حتیٰ کہ اسے آزادی حاصل ہو جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب