السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لوگ پوچھتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو کیوں حرام قرار نہیں دے دیا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کمال علم و حکمت اور لطف و رحمت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، وہ اپنی مخلوق کے حالات سے خوب آگاہ اور اپنے بندوں پر بے حد رحم فرمانے والا ہے، وہ اپنے خلق و تشریع میں حکیم ہے، اس نے لوگوں کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جس میں ان کی دنیا و آخرت کی بہتری ہے اور جو ان کے لئے حقیقی سعادت و حریت اور مساوات کا کفیل ہے اور پھر یہ سب کچھ ایسے عدل و انصاف کے دائرے میں ہے کہ جہاں نہ حقوق اللہ ضائع ہوتے ہیں اور نہ حقوق العباد، اسی شریعت کے ساتھ اس نے اپنے رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کے مبعوث فرمایا کہ جس نے اس کے راستے کی پیروی کی اور اس کے رسولوں کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کی تو وہ عزت کا مستحق ہے اور وہی سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہو گا اور جس نے شاہراہ استقامت پر چلنے سے انکار کردیا تو اسے قتل یا غلامی جیسے ان حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جو اسے نا پسند ہوں تاکہ عدل، امن اور سلامتی کو برقرار رکھا جائے گا اور جانوں، عزتوں اور مالوں کی حفاظت کی جا سکے اسی وجہ سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے تاکہ سرکشوں کو روکا جا سکے، فساد پھیلانے والے عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے اور زمین کو ظالموں سے پاک کیا جا سکے ایسے ظالموں میں سے جو قیدی بن کر مسلمانوں کے ہاتھوں میں آ جائیں تو مسلمان حکمران کو یہ اختیار ہے کہ اگر ان کی شرارتیں حد سے بڑھ چکی ہوں اور اصلاح کی کوئی امید نہ ہو تو انہیں قتل کردے۔ یا معاف کر دے یا فدیہ قبول کر کے انہیں چھوڑ دے اور خیر و بھلائی کی راہ ان کے لئے آسان کر دے یا انہیں غلام بنانے بشرطیکہ وہ یہ محسوس کرے کہ مسلمانوں میں رہنے سے انہیں اپنی اصلاح کا موقع ملے گا، کج روی درست ہو گی، انہیں ہدایت و رہنمائی کا راستہ معلوم ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے عدل وانصاف اور ان کے حسن سلوک کو دیکھ کر ایمان قبول کر لیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں ، اسلامی آداب و احکام کے بارے میں نصوص کے سننے سے عین ممکن ہے کہ انہیں اسلام قبول کرنے کے لئے انشراح قلب و صدر کی دولت حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر، فسق اور نافرمانی کی نفرت پیدا کردے اور اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی حاصل کریں گے اور بطریق کتابت یہ آزادی حاصل کرنے کے بھی اہل ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتـٰبَ مِمّا مَلَكَت أَيمـٰنُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرًا ۖ وَءاتوهُم مِن مالِ اللَّهِ الَّذى ءاتىٰكُم...٣٣﴾... سورة النور
’’ تمہارے غلاموں میں جو کوئی تمہیں کچھ دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کر دیا کرو، اگر تمہیں ان میں بھلائی نظر آتی ہو اور اللہ نے جو مال تم کو بخشا ہے ، اس میں سے انہیں بھی دو۔‘‘
یا وہ قسم یا ظہار یا نذر کے کفارے کے طور پر یا اللہ کی خوشنودی کے حصول یا قیمت کے دن ثواب کی خاطر آزاد کرنے کے دیگر طریقوں سے بھی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ غلامی کی اصل توقید ہے یعنی وہ کافر لوگ جو جہاد میں قیدی بن کر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں اس لئے غلام بنا لیا جاتا ہے تاکہ شر کے ماحول سے الگ کر کے انہیں اپنی اصلاح کا موقع دیا جائے کیونکہ اسلامی معاشرے میں رہن سہن سے ان کے سامنے خیر و بھلائی کا راستہ واضح ہو جائے گا، شر کے پنجوں سے انہیں نجات ملے گی اور کفر و ضلالت کی نجاستوں سے انہیں پاکیزگی حاصل ہو جائے گی اور یہ ایسی زندگی بسر کرنے کے اہل ہوں گے جو امن و سلامتی کا گہوارہ ہو گی تو اسلام کی نگاہ میں غلامی گویا انسانوں کو پاک کرنے کا ایک ذریعہ ہے یا یہ ایک ایسا حمام ہے کہ جو اس میں ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے میل کچیل کو دھو کر صاف ستھرا اور پاکیزہ ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب