سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) کیا عقیدے کے مسائل میں جہالت انسانی معذوری سمجھی جائے گی؟

  • 952
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2085

سوال

(66) کیا عقیدے کے مسائل میں جہالت انسانی معذوری سمجھی جائے گی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عقیدے سے متعلق مسائل میں جہالت کی وجہ سے انسان کو معذور سمجھا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جہالت کی وجہ سے معذوری کے مسئلے میں اختلاف بھی دیگر فقہی واجتہادی مسائل میں اختلاف کی طرح ہے۔ بعض اوقات تو ایک معین شخص پر حکم نافذ کرنے کے بارے میں یہ اختلاف محض لفظی ہوتا ہے یعنی تمام فقہاء کا اس بات پر تو اتفاق ہوتا ہے کہ یہ قول کفر ہے یا یہ فعل کفر ہے یا اس کا ترک کفر ہے، لیکن کیا یہ حکم اس معین شخص پر بھی مقتضیات کے پورا ہونے اور موانع ختم ہو جانے کی وجہ سے صادق آتا ہے یا بعض مقتضیات کے ختم ہوجانے اور بعض موانع کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ حکم اس پر صادق نہیں آتا، اس لیے کہ کفر کے بارے میں جہالت کی دو قسمیں ہیں:

۱۔                    اس کا تعلق ایسے شخص سے ہو جس کا تعلق اسلام کے سوا کسی اور دین سے ہے یا اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں ہے اور اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں کہ کوئی دین اس کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ اس شخص کے بارے میں دنیا میں ظاہری احکام کے مطابق عمل کیا جائے گا اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا، چنانچہ اس سلسلے میں راجح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ایسے لوگوں کا جس طرح چاہے گا امتحان لے گا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ دنیا میں وہ کس طرح کے عمل کرنے والے تھے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ کسی کو گناہ کے بغیر جہنم میں داخل نہیں کرے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا يَظلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴿٤٩﴾... سورة الكهف

’’اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘

ہم نے جو یہ کہا ہے کہ دنیا میں اس پر ظاہر کے مطابق احکام جاری ہوں گے تو اس سے مراد کفر کے احکام ہیں کیونکہ اس نے دین اسلام کو اختیار ہی نہیں کیا ہے،تو اس پر اسلام کے احکام کیوں کر جاری ہو سکتے اور ہم نے جو یہ کہا کہ آخرت میں اس کا امتحان لیا جائے گا تو یہ اس لیے کہا ہے کہ اس کے بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں جنہیں امام ابن قیم رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’’طریق الہجرتین‘‘ میں چودھویں طبقے پر گفتگو کرتے ہوئے مشرکین کے چھوٹے بچوں کے بارے میں آٹھویں مذہب کے ضمن میں بیان فرمایا ہے۔

۲۔           اس کا تعلق ایسے شخص سے ہو جس کی وابستگی دین اسلام کے ساتھ ہے، لیکن زندگی میں اس نے اس کفریہ قول یا فعل کو اختیار کر لیا اور اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ قول و فعل تو مخالف اسلام ہے اور نہ کسی نے اسے اس کے بارے میں کبھی بتایا تو اس شخص پر ظاہری طور پر احکام اسلام جاری ہوں گے اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل اور اہل علم کے اقوال سے اسی طرح ثابت ہے۔

کتاب اللہ سے اس کے دلائل حسب ذیل ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّى نَبعَثَ رَسولًا ﴿١٥﴾... سورة الإسراء

’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما كانَ رَبُّكَ مُهلِكَ القُرى حَتّى يَبعَثَ فى أُمِّها رَسولًا يَتلوا عَلَيهِم ءايـتِنا وَما كُنّا مُهلِكِى القُرى إِلّا وَأَهلُها ظـلِمونَ ﴿٥٩﴾... سورة القصص

’’اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج لے جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿رُسُلًا مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّسُلِ...﴿١٦٥﴾... سورة النساء

’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تھا تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ رہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشاءُ وَيَهدى مَن يَشاءُ...﴿٤ ... سورة ابراهيم

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما كانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَومًا بَعدَ إِذ هَدىهُم حَتّى يُبَيِّنَ لَهُم ما يَتَّقونَ...﴿١١٥﴾... سورة التوبة

’’اور اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کر دے جب تک ان کو وہ چیز نہ بتا دے جس سے وہ پرہیز کریں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَهـذا كِتـبٌ أَنزَلنـهُ مُبارَكٌ فَاتَّبِعوهُ وَاتَّقوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ﴿١٥٥ أَن تَقولوا إِنَّما أُنزِلَ الكِتـبُ عَلى طائِفَتَينِ مِن قَبلِنا وَإِن كُنّا عَن دِراسَتِهِم لَغـفِلينَ ﴿١٥٦ أَو تَقولوا لَو أَنّا أُنزِلَ عَلَينَا الكِتـبُ لَكُنّا أَهدى مِنهُم فَقَد جاءَكُم بَيِّنَةٌ مِن رَبِّكُم وَهُدًى وَرَحمَةٌ ...﴿١٥٧﴾... سورة الأنعام

’’اور (اے کفر کرنے والو!) یہ (قرآن) ایک عظیم کتاب ہے، ہم ہی نے اسے اتارا ہے، (یہ) برکت والی ہے، سو تم اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے (اور یہ اس لیے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر کتابیں اتری ہیں اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بے خبر تھے یا (یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں کی نسبت کہیں سیدھے راستے پر ہوتے، سو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔‘‘

علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حجت علم اور بیان کے بعد ہی قائم ہوتی ہے۔سنت سے اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَسْمَعُ بِی اَحَدٌ مِّنْ هٰذِهِ الْاُمَّة ۔ يعنی أمة الدعوة ۔ِ يَهُوْدِیٌ وَّلاَ نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِیْ اَرْسِلْتُ بِهِ اِلاَّ کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ»(صحیح مسلم، الایمان، باب، وجوب الایمان برسالة نبینا محمدﷺ… ح:۱۵۳)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! اس امت میں سے(مراد امت اجابت ہے) کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے، پھر فوت ہو جائے اور اس  دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔‘‘

جہاں تک اہل علم کے کلام کا تعلق ہے تو المغنی: (۱۳۱/۸) میں ہے:

’’اگر وہ ایسے لوگوں میں سے ہے جو وجوب کو جانتا ہی نہیں، جیسے نو مسلم یا اس نے دارالاسلام کے سوا کسی اور جگہ پرورش پائی ہو یا شہروں اور اہل علم سے دور دراز کسی جنگل میں زندگی گزاری ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے لکھا ہے:

’’میرے ہم نشین میرے بارے میں اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ لوگوں س کو زیادہ تر اس بات سے منع کرتا ہوں کہ کسی معین شخص کی کفر، فسق یا معصیت کی طرف نسبت کی جائے الایہ کہ معلوم ہو جائے کہ اس پر ایسی حجت قائم ہوگئی ہے جس کی مخالفت کرنے والا کبھی کافر، کبھی فاسق اور کبھی نافرمان ہوتا ہے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی خطا کو معاف کر دیا ہے، خطا کا تعلق خواہ خبری و قولی مسائل سے ہو یا عملی مسائل سے۔ سلف کا ان بہت سے مسائل میں اختلاف رہا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے کسی کو کافر یا فاسق یا نافرمان قرار نہیں دیا۔‘‘ آپ نے آگے مزید لکھا ہے: ’’میں یہ بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ سلف اور ائمہ سے جو یہ منقول ہے کہ جو شخص یہ کہے وہ کافر ہے تو یہ بھی حق ہے لیکن اطلاق اور تعیین میں فرق کرنا واجب ہے۔‘‘ آپ نے پھر یہ بھی لکھا ہے: ’’تکفیر کا تعلق وعید سے ہے گویا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تکذیب ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ کبھی آدمی نیا نیا دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے یا اس نے دور دراز کے کسی جنگل میں تربیت پائی ہوتی ہے، تواس صورت میں کسی شخص کو انکار کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا حتیٰ کہ اس پر حجت قائم نہ ہو جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے ان نصوص کو سنا نہ ہو یا سنا تو ہو مگر وہ اس کے نزدیک ثابت نہ ہوں یا کوئی معارض ان کے مخالف ہو، جس کی وجہ سے ان کی تاویل واجب ہوگئی ہو، خواہ وہ سمجھنے میں غلطی پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘مجموع الفتاوی: ۲۲۹/۳، جمع وترتیب ابن قاسم۔

 شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ  نے ’’الدرر السنیۃ‘‘ ۵۶/۱ میں لکھا ہے:

’’جہاں تک تکفیرکا تعلق ہے تو میں اس شخص کو کافروں میں شمارکرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پہچاننے کے بعد اسے گالی دے، لوگوں کو اس سے روکے اور دین کو اختیار کرنے والے سے دشمنی رکھے تو ایسے شخص کو میں کافر سمجھتا ہوں۔‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’جہاں تک کذب و بہتان کا تعلق ہے، تو اس بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم بالعموم ان پرکفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور جو شخص اپنے دین کے اظہار پر قادر ہو، اس کے لیے اپنی طرف ہجرت کو واجب قرار دیتے ہیں، یہ ساری باتیں محض کذب وبہتان ہیں، جن کے ساتھ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ جب ہم اس صنم کی عبادت کرنے والوں کو بھی کافر نہیں سمجھتے، جو عبدالقادر یا علی احمد بدوی کی قبر پر نصب ہیں کیونکہ یہ لوگ جاہل ہیں اور انہیں کوئی آگاہ کرنے والا بھی نہیں، تو اس شخص کو ہم کیسے کافر قرار دے سکتے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے، محض اس لیے کہ اس نے ہماری طرف ہجرت نہیں کی حالانکہ اس نے کفر کیا ہے نہ قتال۔‘‘(الدرر السنیۃ: ۱/ ۵۶،۶۶)

اگر کتاب وسنت کے نصوص اور کلام اہل علم کا مقتضا یہ ہے، تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے لطف وکرم کا بھی تقاضا یہ ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہ دے جب تک اس کے عذر کو ختم نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے جو حقوق واجب ہیں عقل انہیں مستقل طور پر نہیں پہچان سکتی۔ اگر عقل انہیں مستقل طور پر پہچان سکنے پر قادر ہوتی تو حجت رسولوں کے ارسال کرنے پر موقوف نہ ہوتی۔

وہ اصول یہ ہے کہ جو شخص اسلام کی طرف انتساب رکھے، اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا حتیٰ کہ کسی دلیل شرعی سے ثابت ہو جائے کہ وہ اب مسلمان نہیں رہا، مگر اس شخص کی تکفیر میں بے احتیاطی جائز نہیں کیونکہ اس کی تکفیر میں دو بڑے خطرات ہیں:

۱۔            اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور محکوم علیہ کے اس وصف میں کذب وافترا ہے جس کے ساتھ اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ پہلی بات تو واضح ہے کہ اس نے اس شخص پر کفر کا حکم لگایا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کافر قرار نہیں دیا۔ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی چیز کو حرام قرار دے دے کیونکہ تکفیر و عدم تکفیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، جس طرح حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس نے مسلمان کا ایک ایسا وصف بیان کیا ہے جس سے وہ موصوف نہیں ہے گویا کہ اس نے کہا ہے کہ وہ کافر ہے، حالانکہ وہ کفرسے بری ہے، اس بنیادپرہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر قرار دینے کی وجہ سے یہ خود کافر ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِذَا اَکْفَرَ الرَّجُلُ اَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا اَحَدُهُمَا»(صحیح البخاري، الادب، باب من کفر اخاہ من غیر تاویل، ح:۶۰۱۴ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال من قال الاخیه المسلم: یاکافر، ح: ۶۰، واللفظ له)

’’جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر قرار دے، تو ان میں سے ایک کافر ہوتا ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے:

«اِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَاِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ»(صحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال من قال لاخیه المسلم: یاکافر، ح:۶۰)

’’اگر وہ ایسا ہے جیسا اس نے کہا، (تو ٹھیک) ورنہ یہ بات اس پر پلٹ آتی ہے اور اس پر چسپاں ہوجاتی ہے ۔‘‘

اور صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْکُفْرِ، اَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللّٰهِ! وَلَيْسَ کَذٰلِکَ، اِلاَّ حَارَ عَلَيْهِ»(صحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لاخیه المسلم: یا کافر! ح:۶۱)

’’جس نے کسی شخص کو کافر کہہ کر بلایا یااسے اللہ کا دشمن کہا حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو یہ بات اس پر لوٹ آئے گی۔‘‘

حدیث ابن عمر میں جو یہ الفاظ ہیں: ’’اگر وہ ایسا ہے جیسا اس نے کہا‘‘ تو اس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم میں (اسی طرح ہے) اسی طرح حدیث ابو ذر کے یہ الفاظ: ’’اور اگر وہ ایسا نہ ہو‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ایسا نہ ہو۔

یہ دوسرا خطرہ یعنی وصف کفر کا اس پر لوٹ آنا جب کہ اس کا بھائی اس سے بری ہو، دراصل یہ بھی عظیم خطرہ ہے درحقیقت اس میں مبتلا ہونے کا ڈر پایاہے کیونکہ جو شخص مسلمان کو کافر قرار دیتا ہے تو اکثر و بیشتر ایسا شخص اپنے اس عمل پر فخر کرتا اور دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے گویاکہ اس طرح وہ فخر اور تکبر کو جمع کر لیتا ہے، جب کہ فخر سے عمل رائے گاں ہو جاتا ہے اور تکبر موجب عذاب الٰہی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے امام احمد اور امام ابوداود رحمہ اللہ  نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«قَالَ اللّٰهُ عز وجلُ الْکِبْرِيَاءُ رِدَائِی وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِّنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِی النَّارِ»(|سنن ابي داؤد، اللباس، باب ماجاء فی الکبر، ح:۴۰۹۰، وسنن ابن ماجه، الزهد، باب البراء ة من الکبر والتواضع، ح: ۴۱۷۴)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عظمت وکبریائی میری اوپر ی چادر اور عظمت میرے نیچے کی چادر ہے، جو شخص ان میں سے کسی ایک چادرکو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے، تو میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا۔‘‘

لہٰذا تکفیر کا حکم لگانے سے پہلے ان دو باتوں کو دیکھنا واجب ہے:

۱۔            کیا کتاب وسنت کی دلیل اس بات پر موجود ہے کہ یہ کفر ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کذب وافترا کی نسبت نہ کی جا سکے۔

۲۔           کیا اس معین شخص پر یہ حکم نافذ ہوتا ہے کہ اس کے حق میں تکفیر کی شرائط پوری اترتی ہیں جس کی بنیادپر اسے کافر قرار دینے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔ ان شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ اسے اپنی اس مخالفت کا علم ہو جو اس کے لیے موجب کفر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدى وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّى وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورة النساء

’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘

جہنم کی سزا کے لیے یہ شرط قرار دی گئی ہے کہ ہدایت واضح ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کی جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بارے میں یہ بھی شرط ہے کہ اسے یہ بات معلوم ہو کہ اس مخالفت کی وجہ سے کفر وغیرہ لازم آئے گا یا اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اس بات کا علم ہو کہ وہ مخالفت کر رہا ہے، خواہ اس کے نتائج کے بارے میں اسے معلوم ہویا نہ ہو؟

اس کا جواب یہ ہے کہ محض یہ معلوم ہونا ہی کافی ہے کہ وہ مخالفت کر رہا ہے، خواہ اس کے نتائج کے بارے میں اسے واقفیت نہ بھی ہو تب بھی وہ اس حکم کے تحت جہنم کی سزاکا مستحق قرارپائے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے دن میں مجامعت کرنے والے پر کفارہ واجب قرار دیا ہے، خواہ حکم شریعت کی اس مخالفت کا اسے علم ہو اور کفارہ کے بارے میں علم نہ ہو،اسی طرح اس شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا جسے زنا کی حرمت کا تو علم ہو مگر زنا کے نتیجے میں ملنے والی سزا کا علم نہ ہو یا بسا اوقات اسے زنا ہی کا علم نہ ہو۔

کفر کا حکم لگانے سے جو امور مانع ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے کفر پر مجبور کر دیا گیا ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـنِ وَلـكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل

’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، سوائے اس کے جسے (کفر پر) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو، بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے، تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘

اسی طرح ایک امر مانع یہ بھی ہے کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوگئی ہو اور خوشی یا غمی یا غضب وخوف وغیرہ کی شدت کی وجہ سے اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورة الأحزاب

’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو تم دل کے ارادے سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لِلّٰه اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِه حِينَ يَتُوبُ اِلَيْهِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلَی رَاحِلَتِه بِاَرْضِ فَـلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْه وَعَلَيْهَا طَعَامُه وَشَرَابُه فَاَيِسَ مِنْهَا فَاَتٰی شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّهَا قَدْ اَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِه فَبَيْنَا هُوَ کَذٰلِکَ اِذَا َ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَه فَاَخَذَ بِخِطَامِهَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اَللّٰهُمَّ اَنْتَ عَبْدِی وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ»(صحیح مسلم، التوبة، باب فی ا لحض علی التوبة والفرح بها، ح:۲۷۴۷)

’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے، جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے، تمہارے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی، جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان بھی لداہوا تھا۔ وہ اس سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ گیا اس حال میں کہ وہ اپنی سواری سے بالکل مایوس ہوچکا تھا، لیکن اچانک وہ (دیکھتا ہے کہ) اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہے۔ اس نے اس کی مہار کو پکڑا اور مارے خوشی کے فرط مسرت کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، یعنی خوشی کی انتہا کی وجہ سے اس سے یہ غلطی سرزدہوگئی۔‘‘

کفر کا حکم لگانے سے جو امور مانع ہیں، ان میں سے ایک امریہ بھی ہے کہ وہ کسی شبہے کی وجہ سے تاویل سے کام لے رہا ہو اور وہ اس مغالطہ میں ہو کہ وہ حق پر ہے کیونکہ ایسا شخص قصد وارادے سے گناہ اور مخالفت کا ارتکاب نہیں کرتا اس لئے وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورة الأحزاب

’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو تم دل کے ارادے سے کرو (اس پر مواخذہ ہے)‘‘

الا یہ کہ اس کی کوشش کی انتہا یہی ہے، اس وجہ سے وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں بھی داخل ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

’’اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘

المغنی (۱۳۱/۸) میں ہے:

’’اگر کسی شخص نے بے گناہ لوگوں کے قتل یا ان کے اموال لوٹنے کو کسی شبہے یا تاویل کے بغیر حلال قرار دے لیا تو ایسا شخص بھی کافر ہو جائے گا اور اگر کسی تاویل کے ساتھ حلال قرار دیاہو جیسا کہ خوارج کرتے ہیں تو اکثر فقہاء نے انہیں کافر قرار نہیں دیا، حالانکہ وہ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اسے تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘ اس بارے میںانہوں نے آگے لکھا ہے: ’’خوارج کا یہ مذہب مشہورومعروف ہے کہ یہ خوارج ہی ہیں جو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی تکفیر کے قائل ہیں اور ان کے خونوں اور مالوں کو حلال سمجھتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے شہید کرنے کو تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود تاویل کی وجہ سے فقہاء نے خوارج کو کافر قرار نہیں دیا۔ اسی طرح جو شخص بھی اس طرح کی تاویل کی وجہ سے حرام کو حلال قرار دے گا۔ اس کے بارے میں اسی طرح کا موقف اختیار کیا جائے گا۔‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’خوارج کی بدعت کا سبب قرآن مجید کے بارے میں ان کی غلط فہمی ہے اور ان کا مقصد قرآن مجید کی مخالفت نہ تھا لیکن انہوں نے قرآن مجید کا مفہوم ایسا سمجھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے گویا وہ قرآن مجید کی مخالفت کرنا چاہتے ہوں۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے یہ گمان کیا کہ گناہ گاروں کوکافر قرار دینا واجب ہے۔‘‘(مجموع الفتاویٰ: ۱۳/۳۰ جمع وترتیب ابن قاسم)

نیز فرمایا:

’’خوارج نے سنت کی مخالفت کی حالانکہ قرآن مجید نے اتباع سنت کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مومنوں کو کافر قرار دیا ہے حالانکہ قرآن مجید نے ان سے دوستی کا حکم دیا تھا… اور انہوں نے قرآن مجید کی متشابہ آیات کی ان کے معنی کو پہچانے بغیر،اور علم میں رسوخ نہ ہونے کے باوجود، اتباع سنت کی راہ سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اور قرآن مجید کو سمجھنے والے مسلمانوں کی جماعت کی طرف مراجعت کیے بغیر تاویل کرنا شروع کر دی تھی۔‘‘مجموع الفتاویٰ: ۲۱۰/۱۳۔

نیز فرمایا:

’’خوارج کی مذمت اور گمراہی پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، البتہ انہیں کافر قرار دینے میں اختلاف ہے اس سلسلے میں ان کے دو قول مشہور ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ  اور دیگر کئی ائمہ انہیں کافر قرار نہیں دیتے۔‘‘مجموع الفتاویٰ: ۵۱۸/۲۸۔

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  یا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  میں سے کسی نے بھی ان کو کافر قرار نہیں دیا البتہ انہیں مسلمان مگر ظالم اور سرکش قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس سلسلے میں میں نے ان کے بہت سے واقعات کسی دوسری جگہ ذکر کیے ہیں۔‘‘(مجموع الفتاویٰ: ۲۱۷/۷)

نیز فرمایا:

’’دائرئہ دین سے نکل جانے والے خوارج جن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کا حکم دیا تھا، خلفائے راشدین میں سے امیرالمومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ  نے ان کے خلاف قتال بھی کیا تھا۔ حضرات صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے تمام ائمہ دین کا بھی ان کے خلاف قتال پر اتفاق ہے۔ اس کے باوجود حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  اور دیگر صحابہ نے انہیں کافر قرار نہیں دیا بلکہ ان کے خلاف قتال کے باوجود انہیں مسلمان قرار دیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے بھی اس وقت تک ان سے قتال نہیں کیا تھا، جب تک انہوں نے حرام خون نہ بہایا اور مسلمانوں کے مالوں کو لوٹنا شروع نہیں کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے ان کے ظلم و بغاوت کو ختم کرنے کے لیے ان سے قتال کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ کافر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے ان کے حریم (قابل احترام اشیاء) کو گالی دی نہ ان کے مالوں کو غنیمت قرار دیا۔ یہ لوگ جن کی ضلالت نص اور اجماع سے ثابت ہے، ان کو کافر قرار نہیں دیا گیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کا حکم دیا ہے، تو اختلاف کرنے والی ان جماعتوں کو کیونکر کافر قرار دیا جا سکتا ہے جو بہت سے ایسے مسائل میں حق پر نہ رہ سکے، جن کے بارے میں ان سے زیادہ علم والے لوگ بھی غلطی میں مبتلا ہوگئے تھے؟ لہٰذا ان جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دیں نہ ان کے خون کو حلال سمجھیں گو ان کے بارے میں بدعت ثابت ہو چکی ہو، خصوصاً کافر قرار دینے والا فرقہ جب خود بھی بدعتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس کی بدعت کافر قرار دئیے جانے والے فرقہ کی بدعت سے بھی زیادہ سخت ہو۔ اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ ان حقائق کے بارے میں جاہل ہوتے ہیں جن میں ان کا باہمی اختلاف ہوتا ہے۔‘‘… آگے لکھا ہے: ’’اگر مسلمان قتال یا تکفیر میں تاویل سے کام لے رہا ہو تو اس کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔‘‘ نیز فرمایا: ’’علماء کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ابلاغ سے پہلے بھی اس کا حکم بندوں کے بارے میں ثابت ہے یا نہیں؟ امام احمد رحمہ اللہ  اور دیگر ائمہ کے مذہب میں اس کے بارے میں تین اقوال ہیں اور صحیح مذہب یہی ہے، جس پر یہ ارشاد باری تعالیٰ دلالت کررہا ہے۔(مجموع الفتاوی: ۳/ ۲۸۲، ۲۸۸)

﴿وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّى نَبعَثَ رَسولًا ﴿١٥ ... سورة الإسراء

’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿رُسُلًا مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّسُلِ...﴿١٦٥﴾... سورة النساء

’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تھا تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے الزام دھرنے کا موقع نہ رہے۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ما اَحَدَ اَحَبُّ اِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللّٰهِ، َمِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ  أرسل الرسل  مبشرين  منذرينَ»(صحیح البخاري، التوحید، باب قول النبیﷺ لا شخص اغیر من الله، ح: ۷۴۶۱ وصحیح مسلم، التوبة باب غیرة الله تعالیٰ، ح:۲۷۶۰)

’’اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے عذر پسند ہو، اسی وجہ سے اس نے خوشخبری سنانے والوں اور ڈرانے والوںکو بھیجا ہے۔‘‘

خلاصہ کلام یہ کہ وہ شخص جو از راہ جہالت کوئی ایسی بات کہتا یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جو کفر یا فسق ہو، تو وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہے، جیسا کہ کتاب وسنت کے دلائل اور اہل علم کے اقوال سے ثابت ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ128

محدث فتویٰ

تبصرے