السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کر رکھا ہے جیسا کہ ڈاڑھی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے لوگ اس قسم کی تقسیم کا حوالہ دیا کرتے ہیں تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کرنا ایک غلط اور باطل تقسیم ہے کیونکہ دین تو سارے کا سارا ہی مغز، اورسارے کا سارا ہی انسانیت کے لیے نافع، سارے کا سارا ہی تقرب الٰہی اور حصول ثواب کا ذریعہ ہے۔ انسان میں جس قدر ایمان اور اپنے رب کی طرف رجوع کا داعیہ زیادہ ہوگا وہ اسی قدر زیادہ فائدے میں رہے گا۔ انسان اگر اپنے رب کے تقرب کے حصول کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے لباس اور وضع قطع سے متعلق مسائل کی پابندی کرے تو اس سے بھی اسے یقینا اجر و ثواب ملے گا، جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ چھلکے میں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسی لیے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ دین اسلام یا اسلامی شریعت کی کوئی بات بھی چھلکے کی طرح بے فائدہ نہیں کہ اسے پھینک دیا جائے بلکہ شریعت تو ساری کی ساری مغز اور انسانیت کے لیے منفعت بخش ہے، بشرطیکہ نیت اللہ کے لیے خالص ہو اور عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں حسن انداز سے کیا جائے۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں پھیلاتے ہیں انہیں خوب غور و فکر سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ حق و صواب کو پہچان لیں، پھر اس کی اتباع کریں اور اس طرح کی واہی تباہی تعبیرات کو ترک کر دیں۔ یہ صحیح ہے کہ دین اسلام میں بہت سے امور مہتم بالشان، بڑے عظیم ہیں، مثلاً اسلام کے ارکان خمسہ، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے:
«بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّکَاةِِّ وَصَوْمِ رَمَضَان وحج بيت الله الحرامَ»(صحیح البخاری، الايمان، باب دعاؤکم ايمانکم، ح:۸ وصحیح مسلم، الايمان، باب ارکان اسلام ودعائمه العظام، ح:۱۶)
’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ اؒلحرام کا حج کرنا۔‘‘
اور اسلام کی کچھ باتیں ایسی ہیں جو ان سے کمتر اہمیت کی بھی ہیں لیکن دین کی کوئی بات ایسی نہیں جو ـچھلکے کی طرح بے فائدہ ہو اور اسے پھینک دیا جائے۔
جہاں تک ڈاڑھی کے مسئلے کا تعلق ہے تو لاریب ڈاڑھی رکھنا عبادت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور ہر وہ چیز جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو عبادت گردانی جاتی ہے، اس سے انسان اپنے رب کا تقرب حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اس کی اتباع سے وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بجا لاتا ہے اور ڈاڑھی رکھنا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
﴿يَبنَؤُمَّ لا تَأخُذ بِلِحيَتى وَلا بِرَأسى...﴿٩٤﴾... سورة طه
’’بھائی! میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیے۔‘‘
حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ڈاڑھی کا بڑھانا اس فطرت میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے، لہٰذا ڈاڑھی رکھنا عبادت ہے عادت نہیں اور نہ یہ چھلکا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب