سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) ایک تہائی سے کم میں وصیت

  • 9492
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1921

سوال

(52) ایک تہائی سے کم میں وصیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ تو معلوم ہے کہ ایک شخص اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں وصیت کر سکتا ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ ایک تہائی سے کم میں وصیت کرے جبکہ آدمی کے پاس دولت بھی زیادہ ہو؟مال وصیت کو کہاں خرچ کیا جائے ؟ کیا یہ واجب ہے کہ قربانی کے لئے بھی وصیت کی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبیﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے اس وقت فرمایا تھا جب سعد بیمار تھے اور انہوں نے آپﷺ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر سکتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:نہیں‘‘انہوں نے ایک تہائی حصہ کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا:

((الثلث والثلث كثير انك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة ينكففون الناس)) (صحيح البخاري )

’’ ہاں ایک تہائی اور ایک تہائی حصہ بھی بہت ہے، اپنے وارثوں کو دولت مند چھوڑ کر جائو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقیر چھوڑ کر جائو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘

ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اگر لوگ تیسرے کے بجائے چوتھے حصے کی وصیت کریں تو یہ زیادہ موزوں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

((الثلث والثلث كثير)) (صحيح البخاري)

 ’’ تیسرے حصے کی وصیت کرو اور تیسرا حصہ بھی بہت ہے۔‘‘

اور

((أوصىٰ أبوبكر بالخمس )) ( مصنف عبد الرزاق )

 ’’ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے مال کے پانچویں حصے میں وصیت فرمائی تھی۔‘‘

تو اس سے معلوم ہوا کہ حالت مرض میں صدقہ اور وصیت کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی ہے۔

تہائی سے کم کی کوئی حد نہیں ہے، وصیت کرنے والا اپنے مال کے بارے میں جو وصیت کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تہائی سے زیادہ مال کے بارے میں وصیت نہ کرے اور اگر وہ تہائی سے کم مثلاً چوتھے یا پانچویں یا چھٹے حصے کے بارے میں وصیت کرے تو یہ افضل ہے، خصوصاً جبکہ مال بھی زیادہ ہو۔ افضل یہ ہے کہ وصیت نیکی کے کاموں کے بارے میں ہو مثلاً فقیروں، مسکینوں، مسافروں اور مجاہدوں کی مدد کے ئے مسجدوں اور دینی مدرسوں کی تعمیر کے لئے یا رشتہ داروں پر صدقہ کے لئے اور اگر وصیت کرنے والا اپنے لئے یا اپنے دیگر اہل خانہ کی طرف سے قربانی کے لئے وصیت کر جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قربانی بھی شرعی تقریبات میں سے ہے، وصیت ان لوگوں کی مدد کے لئے بھی کی جا سکتی ہے جو شادی کے اخراجات برداشت کرنے سے عاجز ہوں یا جو مقروض اپنا قرض ادا نہ کر سکتے ہوں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص53

محدث فتویٰ

تبصرے