سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) عطیہ میں ترجیح

  • 9485
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1252

سوال

(45) عطیہ میں ترجیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خاندان کے سربراہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بعض ورثاء کو بعض پر ترجیح دے؟ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ حالت صحت و تندرستی میں بعض وارثوں کو بعض پر ترجیح دے لیکن اولاد میں سے کسی کو ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دے سکتا ہاں البتہ بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دیتے ہوئے دو گنا دے سکتا ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

’’ فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ‘‘ ( صحيح البخاري)

 ’’ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل کرو۔‘‘

لہٰذا اگر کوئی اپنے ایک بیٹے کو سودرہم دے تو واجب ہے کہ باقی سب کو بھی سو سو درہم اور بیٹیوں کو پچاس پچاس درہم دے یا پہلے بیٹے سے بھی واپس لے لے اگر بیٹے بیٹاں سن رشد کو پہنچے ہوئے ہوں اور وہ اپنے باپ کو کسی ایک بچے کو ترجیح دینے کی اجازت دے دیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن یاد رہے کہ یہ حکم نفقہ غیر واجب  کے لئے ہے جہاں تک نفقہ  واجب کا تعلق ہے تو وہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق دیا جائے گا مثلاً اس کا ایک بیٹا شادی کے قابل ہے ا ور یہ اسے شادی کا خرچ اور مہر وغیرہ دیتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جس قدر اس نے اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ کیا ہے، اسی قدر وہ اپنے دیگر بچوں کو بھی دے کیونکہ یہ خرچ تو نفقہ ہے ، اس مناسبت سے میں یہاں ایک مسئلہ کی طرف توجہ بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ بعض لوگ ازارہ جہالت اس طرح کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بالغ بیٹے کی شادی پر خرچ کیا ہے تو وہ اپنے چھوٹے بچوں کے لئے یہ وصیت کر دیتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کو بھی اتنی زیادہ رقم دی جائے تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ تو ارث کے لئے وصیت ہے اور وارث کے لئے وصیت حرام ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

’’ إن الله قد أعطى ذى حق حقه فلاوصية لوارث‘‘ ( سنن أبي داؤد)

 ’’ اللہ تعالیٰ  نے ہر حق دار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے لہٰذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔‘‘

اور اگر وہ یہ کہے کہ میں نے ان کے لئے یہ وصیت اس لئے کی ہے کہ میں نے ان کے دوسرے بھائیوں کی شادی پر اتنی ہی رقم خرچ کی ہے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر یہ چھوٹے بچے بالغ ہو کر آپ کی زندگی میں شادی کے قابل ہو جائیں تو بے شک ان کی شادی پر اسی قدر خرچ کر دیں جس قدر ان کے دیگر بھائیوں کی شادی پر خرچ کیا ہے اور اگر وہ آپ کی زندگی میں شادی کی عمر کو نہ پہنچیں تو پھر بعد از وفات ان کی شادی کرنا آپ پر واجب نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص47

محدث فتویٰ

تبصرے