السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں اور ان کی وفات کے بعد ان کے کاغذات میں سے ایک وصیت نامہ ملا ہے جس میں انہوں نے اپنا گھریلو سامان اپنی بیٹی کے نام وقف کردیا تھا جس کی عمر تیرہ سال سے زیادہ نہ تھی اور وہ بچی اب فوت ہو گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا نابالغ کے لئے وقف کرنا صحیح ہے ؟ اور اگر صحیح ہے تو کیا وقف کے وقت اسے اس کے باقی بھائیوں پر ترجیح دینا جائز ہے؟ اگر یہ وقف صحیح ہے تو کیا اسے والد صاحب کے ترکہ کے ثلث تک ہی محدود رکھا جائے گا یا سارا گھریلو سامان ہی اسے دے دیا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وصیت نامہ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ سائل نے جو ذکر کیا ہے کہ ان کے والد نے گھریلو سامان اپنی مذکورہ بیٹی کے لئے وقف کردیا تھا تو یہ بات صحیح ہے، کمیٹی سوال اور وصیت نامہ کے جائزہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس وصیت کو باطل قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں نیز اس وصیت کی حیثیت مستقل ہو گی جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے ، اسے ترکہ کے صرف ثلث تک محدود نہیں رکھا جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب