السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے پردادا نے ساڑھے بارہ کنال زمین وقف کی تھی کہ اس کی آمدنی کنویں پر خرچ کر دی جائے، پھر میرے دادا اور والد نے بھی اس وقف کو جاری رکھا اور اب یہ کنواں بیکار پڑا ہے اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اب پانی کی سپلائی پائپ لائنوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور ہمیں اپنی ضرورت کے لئے اس وقف کی شدید ترین ضرورت ہے تو کیا یہ وقف ذاتی ضرورت کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے کہ زمین کنویں کے لئے وقف کی گئی تھی لیکن اب لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی تب بھی یہ ضروری ہے کہ زمین کو وقف ہی رہنے دیا جائے اور اس کی آمدنی اس علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کی جائے جہاں یہ کنواں موجود ہے بایں طور کہ اس سے کوئی مسجد تعمیر کر دی جائے یا کسی مسجد کی مرمت کروا دی جائے ، یا حفظ قرآن کا کوئی ادارہ کھول دیا جائے یا اسے فقراء و مساکین پر خرچ کردیا جائے۔ وقف کرنے والے کے فقیر رشتہ دار دوسرے لوگوں کی نسبت اس وقف کی آمدنی کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور اگر وقف کی افادیت کے ختم یا کم ہو جانے کی وجہ سے شرعی مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ اس سے کوئی ایسی جائیداد خرید لی جائے جس کی آمدنی زیادہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ کام قاضیٔ شہر کی منظوری کے بعد کیا جائے۔
لیکن وقف کرنے والے کے ورثاء کا محض وارث ہونے کی وجہ سے وقف میں کوئی(خصوصی) حق نہیں کیونکہ وقف بطور میراث نہیں لیا جا سکتا، ہاں البتہ اگر وہ فقیر ہوں تو پھر انہیں بھی اس کی آمدنی میں سے دینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب