السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سعید نامی شخص نے ایک چھوٹا سا قطعۂ اراضی زمین وقف کیا تھا اور وہ اس قطعۂ زمین کی آمدنی کو27 رمضان کی رات صدقہ کر دیا کرتا تھا، سعید کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سالم سعید بھی اس کے نقش قدم پر چلتا رہا، سالم سعید کے بعد محمد سالمم سعید وارث بنا اور محمد سالم سعید بھی اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلتا رہا، محمد سالم سعید کے دو بچے ہیں ایک علی محمد سالم سعید اور دوسرا حیدر محمد سالمم سعید، علی محمد سالمم سعید بھی اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلتا رہا۔ علی اور حیدر بھی تین تین بیٹے چھوڑ کر فوت ہوئے تو کیا ان بیٹوں کے لئے اپنے آبائو اجداد کی جائیداد آپس میں تقسیم کرنا جائز ہے یا یہ جائیداد نسل در نسل وقف ہی رہے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تو ورثاء کے لئے وقف کی یہ زمین آپس میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہے اور اگر اس کی افادیت ختم ہو گئی ہو تو بھی یہ زمین وقف ہی میں رہے گی اور اس کی آمدنی نیکی کے ان کاموں میں خرچ کی جائے گی جہاں اس کی ضرورت ہو جبکہ ان کاموں میں خرچ کرنے والا کوئی اور نہ ہو مثلاً مسجدوں کی اصلاح ، ترمیم اور تعمیر کے لئے یا پانی کے نظام کے لئے یا چٹائیاں اور دریاں خریدنے یا دیگر ایسے لوازم منفعت کے لئے جن کی اس شہر کے لوگوں کو ضرورت ہو جس میں وہ وقف موجود ہو یا پھر اسے وقف کرنے والے کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار فقراء میں تقسیم کر دیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب