السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ایک رشتے دار نے ایک نومولود لاوارث لڑکا گود لیا اس کی تربیت کی، اسے تعلیم دلوائی اور اس کے ساتھ بہت حسن سلوک سے پیش آیا، بڑی محبت اور خاص مناسبت سے اس کا نام’’یوسف‘‘ رکھا۔ پھر یہ متنبیٰ بنانے والے شخص زبیر مقام پر فوت ہو گیا۔ اس کی اپنی صلبی کوئی اولاد نہیں جو اس کی وارث بنے وہ بچہ سن رشد کو پہنچ گیا اور اس نے ظہران کے ٹیکینیکل انسٹیٹیوٹ میں داخلہ بھی لے لیا ہے۔ رشتے داروں نے مشورہ کیا کہ اس لڑکے کا نام بدل دیا جائے۔ بعض نے اس کے حق میں اور بعض نے اس کی مخالفت میں رائے دی کیونکہ اس سے نسب میں گڑ بڑ اور وراثت میں غلطی کا خطرہ ہے، امید ہے کہ آپ اس مسئلے میں فتویٰ عطاء فرمائیں گے تاکہ ہم آپ کے فتویٰ کی روشنی میں لائحہ عمل اختیار کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعاً یہ جائز ہی نہیں ہے کہ لاوارث بچے کو متنبیٰ بنانے والا اس کی نسبت اپنی طرف سے اس طرح منسوب کر ے جس طرح بیٹا اپنے حقیقی باپ اور اس کے قبیلے کی طرف منسوب ہوتا ہے جیسا کہ استفتاء میں پوچھا گیا ہے کیونکہ اس سے جھوٹ، باطل، انساب میں گڑ بڑ، عزتوں کی پامالی اور وراثت میں تبدیلی اس طور پر ہوتی ہے کہ مستحق محروم ہو جاتا ہے اور غیر مستحق مال و دولت کا وارث قرار پا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں خلوت و نکاح کے سلسلے میں حرام امور کی حلت اور حلال امور کی حرمت اور اسی طرح کئی دیگر امور کی بے حرمتی اور حدود شریعت سے تجاوز لازم آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو حرام قرار دیا ہے کہ کسی بچے کی نسبت باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی جائے۔
جو شخص اپنے باپ یا موالی کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر ے تو نبیﷺ نے اس پر لعنت فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے:
﴿ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزوٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِرونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذٰلِكُم قَولُكُم بِأَفوٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَوٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورة الاحزاب
’’ اور تمہارے منہ بولے بیٹے تمہارے حقیقی بیٹے قرار نہیں دیئے ہیں یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ اللہ حق بات فرماتا ہے اور سیدھی راہ دکھاتا ہے، (مسلمانو!) لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلائو، اللہ کے نزدیک یہی انصاف کی بات ہے۔ پس اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ تم سے غلطی میں جو کچھ ہو جائے تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن جو کچھ تم قصداً دل کے ارادے سے کرو گے(اس کا گناہ ہو گا) اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربات ہے۔‘‘
اور نبیﷺ نے فرمایا ہے:
’’ من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام‘‘ (صحيح البخارى)
’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
’’ من ادعى إلى أبيه أو انتمى إلى غير مواليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة‘‘ ( سنن أبي داؤد)
لہٰذا سائل نے مذکورہ نام رکھنے میں جو اجتہاد کیا غلط ہے۔ اسے باقی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ بدل دینا چاہیے کیونکہ کسی بچے کو اس کے باپ کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کرنے کی حرمت کے بارے میں وارد نصوص اور ان حکمتوں کا یہی تقاضا ہے جنہیں قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے۔ باقی رہا مسئلہ نومولود لاوارث کو گود لینے کا، اس پر شفقت کرنے، اس کی تربیت کرنے اور اس سے اچھا سلوک کرنے کا تو یہ ایک نیک کام ہے، اسلامی شریعت نے اس کی ترغیب دی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب