کیا یہ نفع جسے بینک اصلی سرمایہ پر ادا کرتے ہیں حلال ہے یا حرام؟ کیا ہم اس نفع کو لے لیں یا اسے چھوڑ دیں؟
یہ نفع عین سود ہے کیونکہ یہ مال کے عوض اسی کی جنس کا مال اس سے زیادہ لینا ہے اور پھر بینک اس مال پر حاصل ہونے والے نفع کی اصل مقدار کو نہیں بتاتے بلکہ اسے دوسرے کے مال کے ساتھ بھی ملا دیتے اور کبھی بہت زیادہ نفع حاصل کرتے اور کبھی خسارہ بھی اٹھاتے ہیں لہذا بینکوں کی طرف سے ادا کیا جانے والا یہ نفع ربا بھی ہے اور غرر بھی لیکن بعض علماء نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ اسے لے کر خود استعمال نہ کیا جائے بلکہ فقراء و مساکین اور فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کر دیا جائے اور اسے ان لوگوں کے پاس نہ رہنے دیا جائے جو اسے معصیت کے کاموں میں استعمال کریں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب