میں مصر میں حکومت کے تابع ایک بینک میں کام کرتا تھا، اس بینک کا کام یہ ہے کہ یہ زمینداروں اور دیگر لوگوں کو آسان شرطوں پر ایک مدت کے لیے قرض دیتا ہے جو کہ چند مہینوں سے لے کر کچھ سالوں تک کی بھی ہو سکتی ہے۔ بینک ان قرضوں پر سود بھی لیتا ہے اور مقررہ مدت سے تاخیر کی صورت میں تین سے سات فی صد یا اس سے بھی زیادہ جرمانہ بھی کرتا ہے اور جب مدت مقررہ آ جاتی ہے تو بینک اصل قرض کے علاوہ سود اور جرمانہ کی رقم بھی نقد وصول کرتا ہے اور اگر مقروض مدت مقررہ پر نہ ادا کر سکے تو بینک ہر دن کے حساب سے سود وصول کرتا ہے۔ الغرض اس بینک کی ساری آمدنی قرضوں کے سود اور تاخیر کی صورت میں وصول کئے جانے والے جرمانوں پر مشتمل ہے اور اس سے بینک کے ملازمین کو تنخواہ ادا کیا جاتی ہے۔
میں اس بینک میں بیس سال سے زیادہ عرصہ سے کام کر رہا ہوں، بینک کی تنخواہ ہی سے میں نے شادی کی ہے اور اسی سے گزر بسر، بچوں کی پرورش اور صدقہ کرتا ہوں اور اس کے سوا میرا اور کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بارہ میں حکم شریعت کیا ہے؟
اس بینک کا قرضوں پر نفع اور قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کرنا یہ سب سود ہے۔ لہذا اس طرح کے بینک میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔"
اور فرمایا:
"یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔"
اگر آپ کو شرعی حکم کا علم نہ تھا تو آپ نے بینک سے جو تنخواہ لی ہے یہ حلال ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے سودے کوحلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود (بے برکت کرتا) اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"
اور اگر آپ کو علم تھا کہ یہ کام جائز نہیں تو پھر آپ نے بینک سے جس قدر رقم لی ہے وہ ساری رقم فلاحی اداروں اور فقراء وغیرہ میں تقسیم کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کریں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی پکی توبہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کر کے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے مومنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا۔"
اور فرمایا:
"اور مومنو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب