سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) اللہ کے اسماء و صفات کی تاویل نہ کی جائے

  • 939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3380

سوال

(28) اللہ کے اسماء و صفات کی تاویل نہ کی جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض اسلامی ممالک میں دینی مدارس کے طلبہ یہ پڑھتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر ایمان لایا جائے۔اسی طرح کیا اہل سنت کو ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ کے مکتب فکر اور اشاعرہ وماتردید یہ کے مکتب فکر میں تقسیم کرنا صحیح ہے؟ جو علماء اسماء و صفات باری تعالیٰ کی تاویل کرتے ہیں ان کے بارے میں ایک بندئہ مؤمن کا کیا موقف ہونا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ طلبہ مدارس میں جو یہ پڑھتے لکھتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ساتھ تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر ایمان لانا واجب ہے، تو یہ فی الواقع مسلک اہل سنت کے عین مطابق ہے، جیسا کہ اہل سنت کے عقائد کے موضوع پر مطول اور مختصر کتب سے ثابت ہے کہ یہ بات حق اور کتاب وسنت اور اقوال سلف کے عین مطابق ہے۔ نظر صحیح اور عقل صریح کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں اس وقت ہم دلائل بیان نہیں کریں گے، کیونکہ دلائل کے بارے میں سوال میں مطالبہ نہیں کیا گیا، البتہ اہل سنت کی دو مکاتب فکر میں تقسیم کے بارے میں سوال میں جو پوچھا گیا ہے، اس کا جواب ہم ضرور دیں گے۔

٭           ان دونوں میں سے ایک مکتب فکر ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ نصوص کو ان کے ظاہری معنی سے نہیں پھیرنا چاہیے۔

٭           دوسرا مکتب فکر اشاعرہ وماتریدیہ کا ہے، جو اسماء وصفات باری تعالیٰ سے متعلق نصوص کو ظاہر سے پھیرنے کے معاملہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان دونوں مکاتب فکر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں واضح اختلاف ہے۔ پہلے مدرسۂ فکر کے اساتذہ اس بات کو واجب قرار دیتے ہیں کہ اسماء وصفات سے متعلق نصوص کو ان کے ظاہر پر رکھنا اور تمثیل یا تکییف وغیرہ کی نفی کرنا واجب ہے۔ جب کہ دوسرے مدرسۂ فکر کے اساتذہ اسماء وصفات باری تعالیٰ کی ظاہر کے خلاف تاویل کو واجب قرار دیتے ہیں۔

یہ دونوں مدرسۂ فکر مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ان دونوں کا اختلاف درج ذیل مثال سے اچھی طرح واضح ہو جائے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿بَل يَداهُ مَبسوطَتانِ يُنفِقُ كَيفَ يَشاءُ...﴿٦٤﴾... سورة المائدة

’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘

ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام  کو سجدہ کرنے سے جب انکار کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:

﴿قالَ يـإِبليسُ ما مَنَعَكَ أَن تَسجُدَ لِما خَلَقتُ بِيَدَىَّ...﴿٧٥﴾... سورة ص

’’اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! جس شخص کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا؟‘‘

ان دونوں مدرسۂ فکر کے اساتذہ کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان دو ہاتھوں سے کیا مراد ہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے حوالے سے اثبات فرمایا ہے؟

پہلے مدرسۂ فکر کا کہنا ہے کہ واجب ہے کہ ان دونوں کے معنی کو ظاہر پر رکھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دو حقیقی ہاتھوں کا اس طرح اثبات کیا جائے جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہے۔

دوسرے مکتب فکر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ظاہر کے خلاف ان کی تاویل کرنا واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دو حقیقی ہاتھوں کا اثبات حرام ہے، پھر اس بات میں بھی ان میں آپس میں اختلاف ہے کہ تاویل کی صورت میں ہاتھوں سے مراد قوت ہے یا نعمت؟

اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان دونوں مکاتب فکر میں بہت زیادہ اختلاف ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں مکتبۂ فکر کے لوگ اہل سنت کی ایک صف میں اکٹھے نہیں ہو سکتے ، لہٰذا ضروری ہے کہ ان میں سے صرف ایک مدرسۂ فکر کو اہل سنت قرار دیا جائے۔ ہم دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے اور دونوں کو انصاف کے ترازو میں تولیں گے اور وہ انصاف کا ترازو کتاب اللہ، سنت رسول، کلام صحابہ کرام اور نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے تابعین ہیں جو اس امت کے سلف اور ائمہ کرام ہیں۔ اس میزان کے مطابق دلائل کی تمام صورتوں کے مابین، مطابقت یا تضمن یا التزام، میں سے صریحاً یا اشارتاً کوئی ایک بھی ایسی دلیل کا وجود نہیں ملتا جس سے دوسرے مکتب فکر کے موقف کی تائید ہوتی ہو۔ اس میزان کی ہر دلیل صریحاً، ظاہراً یا اشارتاً اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلے مکتب فکر کا مذہب ہی درست ہے، لہٰذا اہل سنت کا وصف صرف انہی کے لیے مخصوص ہے، دوسرا مکتب فکر اس وصف میں اس کے ساتھ شریک نہیں ۔ اس مکتب فکر کو اس وصف میں پہلے مکتب فکر کے ساتھ شامل کر دینا ظلم اور دو متضاد چیزوں کو یکجا کر دینے کے مترادف ہوگا، جب کہ ظلم شرعی طور پر اور دو متضاد چیزوں کو یکجا کر دینا عقلی طور پر ممنوع ہے۔

دوسرے مکتب فکر کے لوگوں یعنی تاویل کرنے والوں نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی تاویل کرنے سے کوئی امر مانع نہیں ہے، جبکہ یہ تاویل کسی شرعی نص سے متعارض نہ ہو، ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ کسی دلیل شرعی کے بغیر لفظ کی ظاہر کے خلاف تاویل کرنا ہی اصول دلیل کے خلاف اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف بات کو منسوب کرنا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں حرام قرار دیا ہے:

﴿قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَوحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٣﴾... سورة الأعراف

’’کہہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو، جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ہے۔‘‘

اور درج ذیل آیت میں بھی اس سے منع فرمایا ہے:

﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا ﴿٣٦﴾... سورة الإسراء

’’اور (اے بندے!) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تاویل کرنے والوں کے پاس اپنی تاویل کی تائید میں نہ تو علم ماثور ہے اور نہ نظر معقول ہے۔ ان کے پاس صرف چند شبہات ہیں اور ان میں بھی تناقض اور تعارض ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی ذات صفات اور اس کی وحی میں اس سے کہیں زیادہ نقص لازم آتا ہے، جو ان کے زعم میں ظاہر کے مطابق اثبات سے لازم آتا ہے۔ یہاں تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

مقصود یہ ہے کہ اہل سنت کے وصف کا صرف وہی گروہ مستحق ہے، جس کا قول سنت کے موافق ہو، چنانچہ پہلا مکتب فکر جو اسماء و صفات باری تعالیٰ کی تاویل نہیں کرتا، تاویل سے کام لینے والے دوسرے مکتب فکر کی نسبت اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے اہل سنت قرار دیا جائے، لہٰذا اہل سنت کو دو گروہوں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اہل سنت کا صرف ایک ہی گروہ ہے۔انہوں نے اس سلسلہ میں ابن جوزی رحمہ اللہ  کے قول سے جو استدلال کیا ہے، تو اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ اہل علم کے اقوال کے لیے تو استدلال کیا جا سکتا ہے، ان کے ساتھ استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اہل علم میں سے کسی کا قول دیگر اہل علم پر حجت نہیں ہے۔ انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ  نے حدیث:

«قُلُوبَ بَنِی آدَمَ  بَيْنَ اِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ»(صحیح مسلم، القدر، باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف شاء، ح: ۲۶۵۴)

’’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘

اور حدیث:

«اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ يَمِيْنُ اللّٰهِ فِی الْاَرْضِ»(ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی: ۱۵۹/۲، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸ وتاریخ بغداد: ۳۲۸ الضعیفة: ۲۲۳)

’’حجر اسود سرزمین کائنات پر اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘

اور آیت کریمہ:

﴿وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم...﴿٤﴾... سورة الحديد

’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

کی تاویل کی ہے؟

اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ امام احمد رحمہ اللہ  کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے مذکورہ دو حدیثوں کی تاویل کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’ابو حامد غزالی رحمہ اللہ  نےجو یہ بیان کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ  نے تین چیزوں کی تاویل کی ہے:

٭           حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے۔

٭           بندوں کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔

٭           اورمیں یمن کی طرف سے رحمان کی سانس کو محسوس کرتا ہوں۔ امام احمد رحمہ اللہ  کی طرف یہ ایک جھوٹی بات منسوب ہے، کسی نے سند کے ساتھ اس بات کو امام احمد رحمہ اللہ  سے نقل نہیں کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ  کے اصحاب میں سے بھی کوئی نہیں جس نے اس بات کو ان سے نقل کیا ہو۔‘‘فتاوی: ۵/۳۹۸ جمع وترتیب ابن قاسم۔

اور ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم...﴿٤﴾... سورة الحديد

’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

اس کی امام احمد رحمہ اللہ  نے تاویل نہیں کی، بلکہ اس آیت کریمہ کی اس کے بعض لوازمات کے ساتھ امام احمد رحمہ اللہ نے تفسیر کی ہے امام احمد رحمہ اللہ ان جہمیہ کی تردید میں نہایت ممتاز مقام کے حامل ہیں جنہوں نے اصلی مراد کے خلاف اس آیت کریمہ کی تفسیر کی ہے، کیونکہ ان کا گمان کے مطابق اس آیت کا تقاضا  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ موجود ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس بات سے پاک ہے، اس موقعہ سے امام احمد رحمہ اللہ  نے بیان فرمایا ہے کہ معیت یہاں مخلوق کے احاطہ کے معنی میں ہے اور احاطہ جن چیزوں کے ساتھ کیا ہے ان میں ایک چیز علم بھی ہے، کیونکہ معیت کا تقاضا حلول واختلاط نہیں ، بلکہ اس کے معنی ہر جگہ اس کے حسب حال اور موقعہ ومحل کے اعتبارسے ہوں گے، اس لیے کہا جاتا ہے:

(سَقَانِیْ لَبَنًا مَعَہٗ مَائٌ) ’’اس نے مجھے دودھ پلایا جس کے ساتھ پانی بھی تھا۔‘‘ اور (صَلَّیْتُ مَعَ الْجَمَاعَة) ’’میں نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ اور (فُـلَانٌ مَعَہٗ زَوْجَتُہٗ) ’’فلاں شخص کے ساتھ اس کی بیوی ہے۔‘‘

ان میں سے پہلی مثال میں معیت امتزاج واختلاط کے معنی میں ہے، دوسری مثال میں کسی اختلاط کے بغیر جگہ اور عمل میں مشارکت کے معنی لئے گئے ہیں اور تیسری مثال میں مصاحبت کے معنی ہیں، خواہ جگہ یا عمل میں اشتراک نہ بھی ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ معیت کے معنی مضاف الیہ کی مناسبت سے مختلف ہواکرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت اس سے مختلف ہوگی جو مخلوق کی اپنے جیسی مخلوق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس معیت میں امتزاج واختلاط کا امکان ہی نہیں اور جگہ میں مشارکت کا امکان بھی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہ بات ممتنع ہے۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اپنی مخلوق سے جدا اور بلند و بالا ہے، لہٰذا وہ آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنے علم وقدرت، سلطنت سمع و بصر اور تدبیر وغیرہ کے ساتھ ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے جیسا کہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، لہٰذا اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ نہ اس کے تقاضے سے خارج ہے اور نہ اس کی تاویل سے، البتہ وہ شخص اسے تاویل سمجھے گا جو معیت کے معنی ہرحال میں امتزاج واختلاط اور جگہ میں مشارکت سمجھتا ہو اور یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ہر حال میں معیت کے یہ معنی نہیں لئے جاسکتے ۔ یہ بات الگ ہے ان تینوں نصوص کی اس تاویل کے حوالے سے جو امام احمد رحمہ اللہ  سے منقول ہے نیز ان نصوص کا ان کی اپنی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو ابھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ اس کے بعض مقتضیات ہی کے ساتھ تفسیر کرنا سمجھا جائے گا، اسے اس معنی سے انحراف قرار نہیں دیا جاسکتا، جو اس کا تقاضا ہے۔

جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے:

«اِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّهَا بَيْنَ اِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ»(صحیح مسلم، القدر، باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف شاء، ح: ۲۶۵۴)

’’بنی آدم کے تمام دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح  ہیںوہ انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘

اہل سنت والجماعت کے ہاں اس میں تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا جو اثبات ہے، وہ بجاہے کیونکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ہیں اور اس طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں۔ ہمارے دلوں کے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ دلوں کو مس کر رہی ہیں۔ جس طرح بادل آسمان وزمین کے درمیان مسخر ہے اور وہ آسمان کو چھوتا ہے نہ زمین کو، اس طرح بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور اس سے ایک دوسرے کو چھونا لازم نہیں آتا۔ باقی رہی یہ حدیث:

«اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ يَمِيْنُ اللّٰهِ فِی الْاَرْضِ»(ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی: ۱۵۹/۲، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸ وتاریخ بغداد: ۳۲۸ الضعیفة: ۲۲۳)

’’حجر اسود زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘

اس کے بارے میں شیخ امام الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جو ثابت نہیں۔‘‘مجموع فتاوی: ۳۹۷/۶ جمع و ترتیب: ابن قاسم۔

مشہور بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ  کا قول ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے، جس نے اس سے مصافحہ کیا اور بوسہ دیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا۔‘‘ نیز فرمایا: ’’یہ بات بالکل صریح ہے کہ حجر اسود اللہ کی صفت ہے نہ اس کا اپنا دایاں ہاتھ۔‘‘ کیونکہ اس میں یہ فرمایا ہے: ’’زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ‘‘ اسے زمین کے ساتھ مقید بیان کیا ہے، مطلق اللہ کا دایاں ہاتھ نہیں کہا۔ اور لفظ مقید کا حکم مطلق کے مخالف ہوتا ہے۔‘‘ اور پھر یہ بھی کہا: ’’جس نے اسے بوسہ دیا اور مصافحہ کیا تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ الگ الگ ہوتے ہیں۔‘‘مجموع فتاوی: ۴۴/۳۔

میں عرض کرتا ہوں کہ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کا ذکرنہیں ہے جس کی اس کے ظاہری معنی کے خلاف تاویل کی گئی ہو، اس میں قطعاً کوئی تاویل نہیں ہے۔اور سائل نے جو یہ کہا تھا کہ دو مکاتب فکر ہیں، جن میں سے ایک ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کا مکتب فکر ہے۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس مدرسہ کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف نسبت وہم ہے، اس سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں کی، لہٰذا یہ بات غلط ہے کیونکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے جو مذہب اختیار کیا تھا وہ وہی تھا جو سلف صالحین اور اس امت کے ائمہ کا مذہب تھا، لہٰذا انہوں نے اس مدرسہ فکر کو ایجاد نہیں کیا تھا جیساکہ سائل کے انداز بیان سے معلوم ہو رہا ہے اس طرح کے انداز تخاطب سے سائل ان کی شان میں کمی کرنا چاہتا ہے۔ واللہ المستعان

تاویل کرنے والے علماء کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ حسن نیت کے ساتھ معروف ہیں اور دین اور اتباع سنت میں پختہ ہیں تو وہ تاویل کرنے میں معذور ہیں، لیکن اس معذوری کے یہ معنی نہیں کہ ان کا یہ طریقہ غلط نہیں جو سلف صالحین کے اس عمل کے مخالف ہے کہ نصوص کو ان کے ظاہر ہی پر رہنے دیا جائے اور اسی عقیدے کو اختیار کیا جائے، جو تکییف و تمثیل کے بغیر ان نصوص کے ظاہر سے معلوم ہو رہا ہے، لہٰذا واجب ہے کہ قول اور قائل، فعل اور فاعل کے بارے میں حکم میں فرق کیا جائے۔ اگر بات اجتہاد اور حسن قصد پر مبنی ہو تو اس کے قائل کو قابل مذمت نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اجتہاد کی وجہ سے اسے اجر ملے گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«اِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَهُ اَجْرَانِ، وَاِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأَ فَلَهُ اَجْرٌ»(صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنة، باب اجر الحاکم اذا اجتهد فاصابا او اخطا، ح: ۷۳۵۲ وصحیح مسلم، الاقضیة، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتهد… ح: ۱۷۱۶)

’’جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد درست بھی ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر وہ فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد سے کام لے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘

جہاں تک تاویل کرنے والے ایسے شخص کو گمراہ قرار دینے کی بات ہے۔ اگر اس گمراہی سے مراد وہ مطلق گمراہی ہے جس کی وجہ سے کسی گمراہ کو قابل مذمت قرار دے کر اس سے ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے،تو اس طرح کی گمراہی کا اطلاق ایسے مجتہد پر نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی نیت اچھی اور دین داری واتباع سنت میں اس کا قدم راسخ ہے اور اگر یہاں گمراہی سے مراد قائل کی مذمت کے بغیر صرف راہ راست کی مخالفت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس طرح کی گمراہی مطلق ضلالت نہیں ہے کیونکہ اس نے طریقہ صحیح استعمال کیا ہے، یعنی حق تک پہنچنے کے لیے اس نے اجتہاد سے کام لیاہے، لیکن اس کا نتیجہ چونکہ حق کے خلاف ہے، لہٰذا اسے گمراہ کہا جا سکتا ہے۔ اس تفصیل سے اشکال اور شک و شبہ دور ہو جاتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ39

محدث فتویٰ

تبصرے