سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نفع کے بغیر سودی بینکوں میں سرمایہ رکھنا

  • 9389
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1096

سوال

نفع کے بغیر سودی بینکوں میں سرمایہ رکھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ان لوگوں کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے، جو بینکوں میں کام کرتے ہیں نیز ان لوگوں کے بارے میں جو سود تو نہیں لیتے لیکن بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھ دیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لاریب! سودی بینکوں میں کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورة المائدة

"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔"

اور حدیث سے ثابت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا:

(هم سواء) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598)

"یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"

بینکوں میں ماہانہ یا سالانہ نفع کی بنیاد پر سرمایہ رکھنا سود اور بالاجماع علماء حرام ہے اور بغیر نفع کے بارے میں بھی زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ ضرورت کے بغیر نہ رکھا جائے کیونکہ اگر بینک سودی کاروبار کرتا ہے تو اس میں سرمایہ رکھنے میں سودی کاموں می ں تعاون ہے خواہ سرمایہ رکھنے والا سود نہ بھی لے، لہذا اس صورت میں خدشہ ہے کہ کہیں یہ بھی گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون کرنے والوں میں شامل نہ ہو جائے خواہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہ بھی ہو، لہذا واجب ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اپنے سرمایہ کی حفاظت اور تصرف کے لیے ایسے طریقے استعمال کئے جائیں جو پاک ہوں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لیے باعث سعادت، عزت اور نجات ہوں اور انہیں جلد از جلد ایسے اسلامی بینک قائم کرنے کی سعادت عطا فرمائے جو سود سے پاک ہوں۔ بے شک وہی قادر و کارساز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص515

فتوی کمیٹی

تبصرے