سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ادھار کی وجہ سے سودا زیادہ قیمت پر بیچنے کا حکم

  • 9352
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 780

سوال

ادھار کی وجہ سے سودا زیادہ قیمت پر بیچنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے گاڑی بارہ ہزار ایک سو ریال میں خریدی تھی اور پانچ ماہ کے ادھار پر چودہ ہزار ایک سو ریال میں بیچ دی۔ امید ہے فتویٰ عطا فرمائیں گے کہ یہ بیع سودی ہے یا غیر سودی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر فرمایا ہے تو یہ بیع جائز ہے بشرطیکہ آپ نے گاڑی خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے لی ہو اور پھر اسے بیچا ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ...٢٨٢... سورة البقرة

"اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔"

اور "صحیحین" میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی ایک زرہ رہن رکھی[1] اس میں ان شاءاللہ سود نہیں ہے خواہ ادھار کی صورت میں قیمت، نقد قیمت کی نسبت زیادہ ہو۔


[1] صحیح بخاری، الرھن، باب من رھن درعہ، حدیث: 2509 وصحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1603

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے