سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عیب دار چیز کو بیچنا جائز نہیں

  • 9338
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1359

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں سبزی کا تاجر ہوں، میرا ایک شراکت دار بھی ہے جس نے ایک ہزار کلومیٹر کی مسافت سے چالیس قنطار زرد آلو خریدے اور جب یہ چھوٹے دکاندار کو بیچے جانے لگے تو معلوم ہوا کہ یہ خراب ہیں، ان کو کیڑا لگا ہوا ہے اور یہ کھانے کے قابل نہیں ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کو یہ میں نے بیچے اور مجھے علم نہ تھا کہ ان کو کیڑا لگا ہوا ہے اور کھانے کے قابل نہیں ہیں۔ میرا ساتھی جو انہیں خرید کر لایا تھا اسے اس کا اسی وقت علم ہو گیا تھا جب اس نے انہیں اپنے سٹور میں رکھا تھا لیکن اس نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ سال مال خراب ہے، ہاں البتہ یہ کہا کہ چند دانوں میں کیڑے ہیں۔۔۔ تو اس کے بیچنے کے بارے میں کیا حکم شریعت ہے؟ ان چھوٹے دکانداروں کے بارے میں کیا حکم ہے جن کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ مال خراب ہے اور انہوں نے پھر بھی اسے بیچ دیا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عیب دار چیز کو اس کے عیب کے بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تو اس دھوکا کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:

(من غشنا فليس منا) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من غشنا فليس منا‘ ح: 101)

"جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:

(البيعان بالخيار مالم يتفرقا فان صدقا و بينا بورك لهما في بيعهما‘ وان كتما وكذبا محقت بركة بيعهما) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب اذا بين البيعان...الخ‘ ح: 2079 وصحيح مسلم‘ البيوع‘ باب الصدق في البيع والبيعان‘ ح: 1532)

"بیع کرنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ الگ نہ ہوں۔ اگر وہ سچ بولیں اور ہر چیز واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہو گی اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت ختم ہو جائے گی۔"

جو شخص دھوکا دے اور عیب والی چیز کو صحیح چیز کے بھاؤ بیچے اسے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرنی چاہیے، اپنے فعل پر نادم ہونا چاہیے اور جس کو دھوکا دیا ہے اسے اس کا حق واپس کر کے صلح کر لینی چاہیے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ