سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سونے کی سونے کے ساتھ بیع کا جائز طریقہ

  • 9285
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1604

سوال

سونے کی سونے کے ساتھ بیع کا جائز طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک سونا بیچنے والے کے پاس کچھ پرانے زیورات لے کر گیا، جن کا اس نے وزن کر کے بتایا کہ ان کی قیمت مبلغ پندرہ سو ریال ہے اور میں نے اس سے نئے زیورات خریدے جن کی قیمت مبلغ اٹھارہ سو ریال ہے۔ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں صرف تین سو ریال ادا کر دوں (جو فرق ہے) یا یہ ضرروی ہے کہ پہلے اس سے پندرہ سو ریال وصول کروں اور پھر اسے اٹھارہ سو ریال دوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سونے کی سونے کے ساتھ بیع جائز نہیں الا یہ کہ وہ ایک جیسا ہو، برابر برابر ہو، وزن ایک جیسا ہو اور دست بدست ہو جیسا کہ احادیث صحیحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح منقول ہے، [1]خواہ سونے کے زیورات قدیم و جدید ہونے کی اعتبار سے مختلف نوعیت کے ہوں یا کسی اور اعتبار سے مختلف ہوں، اسی طرح چاندی کی خرید و فروخت کا بھی یہی حکم ہے۔

جائز طریقہ یہ ہے کہ جو شخص سونے کو سونے کے بدلہ میں خریدنا چاہے تو اس کے پاس جو سونا ہو اسے چاندی یا نوٹوں کے ساتھ بیچ دے  اور اس کی قیمت وصول کر لے اور پھر اپنی ضرورت کے مطابق سونا اس کے موجودہ بھاؤ کے حساب سے خریدے اور قیمت میں چاندی یا نوٹ ادا کر کے دست بدست سودا کرے۔ سونے کی سونے کے ساتھ یا سونے کی چاندی کے ساتھ بیع میں سود کے اعتبار سے کرنسی نوٹ بھی سونے اور چاندی ہی کے قائم مقام ہیں۔

اگر سونے یا چاندی کو نقدی کے سوا کسی اور چیز مثلا گاڑی یا سامان یا چینی وغیرہ کے ساتھ بیچ دیا تو پھر قبضہ کرنے سے پہلے الگ ہونے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ سونے، چاندی اور کرنسی نوٹوں اور ان مذکورہ اور ان جیسی دیگر اشیاء میں سود جاری نہیں ہوتا۔ اگر بیع ادھار ہو تو پھر جروری ہے کہ مدت کی وضاحت کر دی جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ...٢٨٢... سورة البقرة

"اے مومنو! جب آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔"


[1] صحیح مسلم، المساقاة، باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقدا، حدیث: 1584-1587

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے