سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بیع سلم کے کچھ اور مسائل

  • 9270
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1237

سوال

بیع سلم کے کچھ اور مسائل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی شخص معلوم وزن کی کھجوروں کی بیع سلم کے سلسلہ میں کسی کو کچھ درہم دے تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وزن کے اندازے کے مطابق کھجوروں کے کچھ درخت لے لے جبکہ پھل کے پکنے کا آغاز ہو گیا ہو یا اس طرح اندازے سے درخت لینا جائز نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اسے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے انہوں نے اس شرط کے ساتھ اسے مشروط قرار دیا ہے کہ ان درختوں کا پھل یقینی طور پر اس سے کم ہو جو مقروض کے ذمہ ہے اور دونوں اس پر راضی بھی ہوں اور معاہدہ کے وقت ایسی کوئی شرط عائد نہ کی ہو۔ ان حضرات کا استدلال حضرت جابر کے قصہ سے ہے جو کہ "صحیح" میں موجود ہے[1] اور پھر باب الابقاء، باب بیع سے زیادہ وسیع ہے اور اس میں اس چیز کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے جس کی بیع میں ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس مسئلہ کا تعلق اس صورت سے بھی ہے کہ اپنا کچھ حق لے لیا جائے اور باقی معاف کر دیا جائے، نیز اس صورت میں مقروض کے ساتھ نرمی، احسان اور رواداری بھی ہے کہ اس سے پورا مال لینے کے بجائے تھوڑے ہی پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔

جمہور نے اسے ناجائز قرار دیا ہے اور "صحیحین" میں موجود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من اسلف في شئيء فلسلف في كيل معلوم ووزن معلوم الي اجل معلوم) (صحيح البخاري‘ السلم‘ باب السلم في وزن معلوم‘ ح: 2240 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب السلم‘ ح: 1604)

"جو شخص کسی چیز کی بیع سلم کرے تو وہ معلوم ناپ، معلوم وزن اور معلوم مدت کے لیے کرے۔"

اس حدیث کا مضمون عام ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قصہ خاص ہے جس کا حکم عام نہیں ہے۔ لہذا سد ذریعہ کے لیے یہ عدم جواز کا نقطہ نظر ہی راجح ہے۔ ان حضرات کا استدلال "صحیحین"[2] میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہے جس میں بیع المزابنہ کی ممانعت ہے، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے کھیت کے پھل کو اگر وہ کھجور ہے تو کھجور کے ساتھ اور اگر فصل ہے تو کھانے کی اشیاء کے ساتھ اور اگر تازہ انگور ہوں تو کش مش (خشک انگور) کے ساتھ ناپ کر بیچ دے۔

ان دونوں میں سے پہلا قول زیادہ راجح ہے کیونکہ حدیث جابر اس کے جواز کی نص ہے، نیز مذکورہ بالا وجوہ سے بھی اس کی حلت معلوم ہوتی ہے۔ یعنی پیمائش وزن اور مدت متعین ہونی چاہیے لیکن اگر درختوں کے پھل کی مقدار کم، برابر یا زیادہ ہونے کا محض احتمال ہو تو پھر یہ بیع بالاتفاق ممنوع ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی سابقہ حدیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے۔


[1] صحیح بخاری، البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی، حدیث: حدیث: 2127

[2] صحیح بخاری، البیوع، باب بیع المزابنة...الخ، حدیث: 2185 وصحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1539

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے