سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

یہ حیلہ ہے

  • 9267
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1306

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک گاڑی خریدنا چاہتا تھا، گاڑیوں کے شو روم میں گیا، اور وہ گاڑی دیکھی جو میں (خریدنا) چاہتا تھا اور پھر ایک ایسے شخص کے پاس گیا جس سے میری جان پہچان تھی اور وہ قسطوں پر گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کام کرتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے کہا کہ میں وہ گاڑی تمہیں کرید کر دیتا ہوں لیکن قسطوں کی وجہ سے دس ہزار زیادہ قیمت وصول کروں گا تو میں نے شو روم پر جا کر پانچ سو ریال بیعانہ دے دیا اور پھر وہ میرے ساتھ شو روم پر آیا، گاڑی خریدی، تحریر لکھ دی اور اس نے اس کی نقد قیمت ادا کر دی اور جب ہم شو روم سے باہر نکلے تو اس نے پوچھا کہ گاڑی کہاں ہے؟ میں نے اسے گاڑی دکھائی تو اس نے کہا کہ تمہیں گاڑی مبارک ہو اور یہ کہہ کہ وہ چلا گیا۔ میں نے گاڑی لے لی جبکہ وہ اس کے نام پر ہے اور اس کے بعد میں نے حسب معاہدہ ماہانہ قسطیں ادا کرنا شروع کر دیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیع جائز ہے یا ناجائز؟ گاڑی تقریبا ایک سال سے میرے قبضہ میں ہے اور میں اسے قطعا اس شرط کے ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا جو زیادہ قیمت ادا کرنے کے سلسلہ میں اس سے کی تھی۔ میری اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بیع حرام اور سود کے لیے ایک حیلہ ہے کیونکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس آدمی نے آپ کو گاڑی کی قیمت سود پر قرض دی ہے اور اس نے اسے محض صوری طور پر خریدا ہے جبکہ اس کا اپنے لیے گاڑی خریدنا مقصود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جن امور کو حرام قرار دیا ہے، وہ حیلہ سازیوں سے حلال نہیں ہو جاتے بلکہ حیلہ سازیوں سے تو قباحت اور خباثت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ حیلہ سازیاں آدمی کو ان یہودیوں کے مشابہہ بنا دیتی ہیں جو گھٹیا حیلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ باتوں کو حلال ٹھہرا لیا کرتے تھے، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:

(قاتل الله اليهود‘ ان الله لما حرم (عليهم) شجومها جملوه ثم باعوه فاكلوا ثمنه) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب بيع الميتة والاصنام‘ ح: 2236 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب تحريم بيع الخمر والميتة...الخ‘ ح: 1581)

"اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے جب اللہ تعالیٰ نے ان پر جانوروں کی چربیوں کو حرام قرار دیا تو انہوں نے ان چربیوں کو پگھلا کر چیب دیا اور ان کی قیمت کو کھانے لگے۔"

اصحاب سبت کے واقعہ کو تو ہر مومن کتاب اللہ میں پڑھتا ہے کہ دریا کے کنارے آباد بستی کے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار کو حرام قرار دیا تھا اور ان کی آزمائش کے طور پر ہفتہ کے دن سطح آب پر مچھلیاں اس قدر کثرت سے نمودار ہوتی تھیں کہ دوسرے دنوں میں اس طرح نمودار نہیں ہوتی تھیں، لیکن جب مدت دراز ہو گئی تو انہوں نے دیکھا کہ اب مچھلی کے شکار کے بغیر چارہ کار نہیں تو انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ جمعہ کے دن پانی میں جال ڈال دیتے تھے، ہفتہ کے دن آنے والی مچھلیاں ان کے جال میں پھنس جاتی تھیں اور یہ اتوار کے دن انہیں اپنے جال سے نکال لیا کرتے تھے، تو پھر انہیں اس حیلہ سازی کی سزا کیا ملی؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَقَد عَلِمتُمُ الَّذينَ اعتَدَوا مِنكُم فِى السَّبتِ فَقُلنا لَهُم كونوا قِرَ‌دَةً خـٰسِـٔينَ ﴿٦٥ فَجَعَلنـٰها نَكـٰلًا لِما بَينَ يَدَيها وَما خَلفَها وَمَوعِظَةً لِلمُتَّقينَ ﴿٦٦﴾... سورة البقرة

"اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لیے اور جو ان کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا۔"

اس موقع کی مناسبت سے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان امور کے بارے میں حیلوں بہانوں سے کام نہ لیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور پھر یاد رہے کہ عقود میں اعتبار مقاصد کا ہوتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(انما الاعمال بالنيات‘ وانما لكل امري ما نوي) (صحيح البخاري‘ بدء الوحي‘ باب كيف كان بدء الوحي...الخ‘ ح: 1 وصحيح مسلم‘ الامارة‘ باب قوله صلي الله عليه وسلم انما الاعمال بالنية...الخ‘ ح: 1907)

"تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی۔"

اور اگر یہ شخص واقعی اس کا دوست ہے تو پھر کیا خوب تھا کہ اسے سود کے بغیر قرض حسنہ دے دیتا اور اس طرح ان محسنین کی صف میں شامل ہو جاتا جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

"بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"

میں اس بھائی اور دوست کو جس نے یہ معاملہ کیا ہے، نصیحت کرتا ہوں کہ گاڑی کی قیمت پر وصول کرنے والے اس سود کو ختم کر دے اور صرف گاڑی کی اس اصلی قیمت کے وصول کرنے پر اکتفاء کرے جس پر آپ نے اسے خریدا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ