ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میرے پال مال ہے اور میں گاڑیوں کی نقد خریداری میں اس کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں۔ گاڑی کی قیمت نو ہزار ریال ہے لیکن میں اسے ایک سال یا دو سال کی مدت کے لیے قسطوں پر چودہ ہزار یا دس ہزار ریال میں فروخت کر دیتا ہوں جب کہ دو ہزار یا تین ہزار ریال پیشگی بھی لے لیتا ہوں لیکن مجھے (اس میں) شک ہے کہ کیا یہ بیع صحیح ہے یا سودی ہے؟ میں دو سال سے اس طرح کی بیع کر رہا ہوں تو جو اب تک ہو چکا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔"
اللہ تعالیٰ نے جن بیوع کو حلال قرار دیا ہے، ان میں ادھار کی بیع بھی ہے اور اس کے جائز ہونے کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں سے کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ انصاف سے لکھے اور نیز لکھنے والا جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے۔"
قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ قرض کے لین دین کی تمام صورتوں کو سامل ہے۔"صحیحین" میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے[1] کہ بریرہ کو اس کے مالکان نے نو اوقیوں میں (اسے) بیچا جسے نو قسطوں میں ادا کرنا تھا اور ہر سال ایک اوقیہ کی قسط تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کو برقرار رکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاملہ کی یہ صورت جائز ہے جس کے بارے میں سائل نے پوچھا ہے اور وہ اس آیت مذکورہ کے عموم میں داخل ہے۔
[1] صحیح بخاری، المکاتب، باب استعانة المکاتب...الخ، حدیث: 2563 وصحیح مسلم، العتق، حدیث: 1504