سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مسئلہ تورق نمبر2

  • 9261
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1611

سوال

مسئلہ تورق نمبر2
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے دوسرے سے مبلغ دس ہزار ریال اس شرط پر قرض لیے کہ وہ معاہدہ کے ایک سال بعد اسے دو ہزار ریال زیادہ ادا کرے گا اور اس معاملہ کی تفصیل حسب ذیل ہے:

صاحب قرض نے ایک سامان مبلغ دس ہزار ریال میں خریدا اور مقروض کو وہ بارہ ہزار ریال میں اس شرط پر بیچ دیا کہ وہ معاہدہ کے ایک سال بعد اسے سارا قرض ادا کرے گا، لیکن دوسرے شخص نے اس سامان کو اسی جگہ پر نو ہزار آٹھ سو ریال میں فروخت کر دیا۔۔۔ یاد رہے قرض دہندہ  کا مقروض کے ساتھ یہ معاملہ صحیح ہے؟ کیا مقروض کا جگہ کے مالک کے ساتھ یہ معاملہ صحیح ہے؟ کیا یہ مسئلہ تورق ہے یا یہ سود ہی کا ایک حیلہ ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سود کے شر سے بچائے، ہمیں اس مسئلہ میں فتویٰ دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں تورق کے نام سے موسوم ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کسی دوسرے کو اپنا وہ سامان جس کا وہ مالک ہے اور جسے اس نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، معلوم قیمت کے ساتھ معلوم مدت کے ادھار پر بیچے اور پھر مشتری اسے اپنے قبضہ میں لینے کے بعد اس میں تصرف کرے۔

اکثر و بیشتر حالات میں اس طرح کا معاملہ نقدی کی ضرورت کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور علماء کے صحیح قول کے مطابق اس طرح کی یہ بیع جائز ہے اور یہ ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا۟...٢٧٥... سورة البقرة

"اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔"

اور فرمان باری تعالیٰ:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ...٢٨٢... سورة البقرة

"اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔"

میں داخل ہے اور قرض دہندہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے سامان کو بیچے جو تاجروں کے پاس ہو اور جسے اس نے خریدا اور اپنے قبضہ میں نہ لیا ہو بلکہ یہ باطل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(لا يحل سلف و بيع‘ ولا بيع ما ليس عندك) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع‘ ماليس عنده‘ ح: 3504)

"سلف اور بیع حلال نہیں ہے اور نہ اس چیز کی بیع حلال ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔"

اسی طرح آپ نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

(لا تبع ما ليس عندك) (مسند احمد: 3/402 وسنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع ما ليس عنده‘ ح: 3503)

"اس سامان کو نہ بیچو جو تمہارے پاس موجود ہی نہ ہو۔"

اس مسئلہ یعنی مسئلہ تورق، میں بیع جائز ہے بشرطیکہ مال بائع کے پاس موجود ہو اور اس کے قبضہ میں ہو اور پھر مشتری کے لیے یہ جائز نہیں کہ اسے اپنے قبضہ و ملکیت میں لیے یا بازار میں منتقل کئے بغیر قرض دہندہ ہی کے پاس فروخت کر دے۔ قرض دہندہ کے پاس اس قیمت سے کم پر بیچنا بھی جائز نہیں جس پر اس نے خود خریدا ہو کیونکہ اس صورت کو سود کے لیے ایک حیلہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔

اس سامان کو قرض دہندہ کے پاس اس قیمت سے کم پر بیچنا جس پر اس سے خریدا ہو صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بیع عینہ ہے جو سودی بیوع میں سے ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے