سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بیع عینہ

  • 9259
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 2620

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے شادی کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے پاس مہر کے لیے مطلوبہ رقم نہ تھی۔ وہ ایک تاجر کے پاس قرض لینے کے لیے گیا تو تاجر نے اس سے کہا کہ میں تجھے یہ گاڑی سترہ ہزار ریال پر ادھار بیچتا ہوں جو تو مجھے سال کے اختتام پر یک مشت ادا کرے گا تو کیا یہ سود ہے؟ یاد رہے کہ اس گاڑی کی نقد قیمت صرف ساڑھے بارہ ہزار ریال ہے اور یہ گاڑی ہی بائع اور اس شادی کرنے والے کے درمیان شرط کا محور ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر امر واقع اسی طرح جس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شکص سے گاڑی ادھار پر نقد قیمت کی نسبت زیادہ پر خریدتا ہے تاکہ مشتری، بائع یا جو اس کے حکم میں ہو اس کے سوا جس کو چاہے بیچ دے تو یہ سود نہیں ہے بلکہ یہ جائز اور صحیح عقد کا بیع ہے۔ اور اگر وہ ایک شخص سے ادھار گاڑی خریدتا ہے اور اس شرط پر کہ وہ اسے جلد ہی اس سے کم قیمت پر لوٹا دے گا جس پر اس نے خریدا ہے تو یہ نقد کی نقد کے ساتھ اضافہ کے ساتھ بیع ہے اور یہ وہ سود ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، اور گاڑی کی بیع ایک فرضی بیع ہے جسے محض دھوکا، سود کے لیے حیلہ اور باطل طریقے سے مال کھانے کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مشتری ایک ایسے شخص سے گاڑی خریدتا ہے جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ کام میں وہ پہلے بائع ہی کے تابع ہے یا کسی ایسی شخص سے جو اس منصوبہ میں شریک ہے کہ گاڑی بائع اول ہی کے پاس واپس لوٹ آئے تو یہ بھی دھوکا اور سود کھانے کے لیے ایک حیلہ سازی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ