نقد کی بجائے اگر ادھار اور قسطوں کی صورت میں ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
مدت معلوم تک بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ معتبر شرائط پر مشتمل ہو، اسی طرح قیمت بالاقساط ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جو شخص کسی چیز کی ادھار بیع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ معلوم ناپ، معلوم وزن اور معلوم مدت کے لیے بیع کرے۔"
اسی طرح "صحیحین" میں موجود بریرہ کے قصہ[1] سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مالک سے اپنے آپ کو نواوقیہ پر اس شرط پر خریدا کہ وہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرے گی اور یہ قسطوں ہی کی بیع ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، بلکہ اسے برقرار رہنے دیا اور اس اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں، ادھار ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے اس سے زیادہ ہو۔
[1] صحیح بخاری، المکاتب، باب استعانة المکاتب...الخ، حدیث: 2563 وصحیح مسلم، العتق، حدیث: 1504