عشرہ ذوالحجہ میں بال کٹوانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جب کہ انسان نے قربانی کی نیت کر رکھی ہو تو کیا وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرے یا نہ کرے؟ امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے۔
جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ماہ ذوالحجہ کے آغاز سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کٹوائے کیونکہ اس حدیث صحیح میں اس کی ممانعت آئی ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح" میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے [1]کہ جب حیض اور نفاس والی عورتیں عشرہ ذوالحجہ میں پاک ہو جائیں اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتی ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائیں، جیسا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے دیگر مسلمان بھی اس موقع پر اپنے جسم کے بال اور ناخن نہیں کٹواتے لیکن انہیں غسل کے وقت بال کھولنے اور کنگھی کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جان بوجھ کر بال نہ کاٹیں، بال کھولنے اور کنگھی کرنے کے وقت اگر غیر ارادی طور پر کچھ بال گر جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح اگر قربانی کرنے والا کوئی شخص بھول کر یا جہالت کی وجہ سے بال یا ناخن کاٹ لے تو اس پر کوئی کفارہ وغیرہ نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس طرح کے اور دیگر امور میں خطا و نسیان کو معاف فرما دیا ہے اور جو شخص جان بوجھ کر ایسا کرے تو اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے، ہاں قربانی کرنے والے کے اہل خانہ پر کچھ واجب نہیں ہے، یعنی علماء کے صحیح قول کے مطابق ان کے لیے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ حکم قربانی کرنے والے یعنی اپنے مال سے قربانی خریدنے والے ہی کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح وکلاء کے لیے بھی یہ حکم نہیں ہے کیونکہ وہ قربانی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ قربانی کرنے والے تو ان کے موکل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
[1] صحیح مسلم، الاضاحی، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجة...الخ، حدیث: 1977