سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

روضہ رسول کی زیارت کے بارے میں احادیث کا حکم

  • 9220
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3249

سوال

روضہ رسول کی زیارت کے بارے میں احادیث کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امید ہے درج ذیل احادیث کی صحت کے بارے میں رہنمائی فرمائیں گے۔

(من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني)

"جو شخص بیت اللہ کا حج کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے جفا سے کام لیا۔"

(من زارني بعد موتي فكانما زارني في حياتي)

"جو شخص میری موت کے بعد میری زیارت کرے، اس نے گویا میری زندگی ہی میں میری زیارت کی۔"

(من زارني بالمدينة محتسبا كنت له شفيعا شهيدا يوم القيامة)

"جو شخص حصول ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرے تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے بارے میں گواہی دوں گا۔"

یہ احادیث بعض کتابوں میں مذکور ہیں، لہذا ان کے بارے میں کئی اشکال ہیں اور ان کے بارے میں دو رائے ہیں، جن میں سے ایک رائے کے مطابق یہ احادیث صحیح ہیں اور دوسری کے مطابق صحیح نہیں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان میں پہلی حدیث کو ابن عدی اور دارقطنی نے بطریق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

(من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني) (الكامل لابن عدي: 7/2480 والسلسلة الضعيفة‘ ح: 45)

"جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ سے جفا کی۔"

یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ اس کے بارے میں تو یہ کہا گیا ہے کہ یہ موضوع یعنی جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن نعمان بن شبل باہلی ہے، جو اسے اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں راوی بے ھد ضعیف ہیں۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ "اس حدیث میں طعن نعمان کی وجہ سے نہیں بلکہ ابن نعمان کی وجہ سے ہے" اس حدیث کو بزار نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابراہیم غفاری ہے اور وہ بھی ضعیف ہے، نیز بیہقی نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند مجہول ہے۔

دوسری حدیث کو امام دارقطنی نے عن رجل من آل حاطب عن النبي صلي الله عليه وسلم کی سند کے ساتھ انہی الفاظ میں روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی مجہول آدمی ہے۔[1] امام ابو یعلیٰ نے اسے "مسند" میں اور ابن عدی نے "کامل" میں بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حفص بن داود ہے جو کہ ضعیف الحدیث ہے۔

تیسری حدیث کو ابن ابی فدیک نے سلیمان بن یزید سے روایت کیا ہے، سلیمان بن یزید کعبی نے جو کہ ضعیف الحدیث ہے، اسے بطریق عمر روایت کیا ہے [2]اور اس کی سند میں ایک مجہول راوی بھی ہے۔ الغرض وہ تمام احادیث جن میں خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کا ذکر ہے، وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں بلکہ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ موضوع ہیں۔

ہاں البتہ ایسی صحیح احادیث ضرور ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ قبر کی زیارت عبرت و نصیحت اور میت کی دعا کے لیے کی جائے، لہذا جو شخص قبروں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی شرعی زیارت کرنا چاہے یعنی عبرت و نصیحت کے لیے، میت کے لیے دعا کے لیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود بھیجنے کے لیے، صاحبین کے لیے یہ دعا کرنے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوں اور پھر اس مقصد کے لیے نہ شد رحال کرے (یعنی نہ تو کجاوے کسے) اور نہ سفر کرے تو یہ زیارت مشروع ہے اور اس میں اجروثواب کی امید ہے۔

جو شخص اس مقصد کے لیے شد رحال کرے یا باقاعدہ سفر اختیار کرے تو یہ جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(لا تشد الرحال الا الي ثلاثة مساجد‘المسجد الحرام‘ ومسجد الرسول صلي الله عليه وسلم‘ ومسجد الاقصي) (صحيح البخاري‘ فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة‘ باب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة‘ ه: 1189)

"تین مسجدوں کے سوا اور کسی کی طرف شد رحال نہ کیا جائے (اور وہ تین مسجدیں یہ ہیں) مسجد حرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ۔"

باقی رہی یہ حدیث:

(لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتكم قبورا (وصلوا علي) فان تسليمكم يبلغني اينما كنتم) (مسند ابي يعلي‘ ح: 469 من رواية علي بن ابي طالب رضي الله عنه وما بين القوسين لفظ ابي داود‘ من حديث ابي هريرة رضي الله عنه‘ في المناسك‘ باب زيارة القبور‘ ح: 2042)

"میری قبر کو میلہ اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنانا اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا، تم جہاں کہیں بھی ہو گے تمہارا سلام مجھے پہنچ جائے گا۔" اسے ضیاء مقدسی نے "المختارہ" میں روایت کیا ہے۔


[1] سنن دار قطنی 2/277، حدیث: 2668

[2] تاریخ جرجان ص 220، 434

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے